عراق جنگ کے تناظر میں‘ایران کے خلاف فوجی منصوبہ کا امریکہ نے لیاجائزہ

,

   

واشنگٹن۔انتظامی عہدیداروں کے مطابق پچھلی جمعرات کے روز اعلی قومی سکیورٹی شراکت داروں کے ساتھ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ایک اجلاس میں کارگذار ڈیفنس سکریٹری پاٹریک شانا ہان نے فوجی کا تازہ منصوبہ پیش کیا جس میں 120,000فوجی دستوں کو مشرقی وسطی روانہ کیاجائے

جو نیوکلیئر ہتھیاروں کی تیاری کے کام پر روک لگانے کے لئے ایران پر امریکہ دستوں کے حملوں کو انجام دیں گے۔ٹرمپ کے قومی سکیورٹی مشیر جان آر بولٹن کی ہدایت پر یہ جائزہ تیار کیاگیاہے۔

عہدیدار نے کہاکہ وہ نہیں چاہتے کہ ایران پر زمین حملہ کیاجائے جس کے لئے بڑی تعداد میں دستوں کی ضرورت ہے۔

یہ تبدیلی مسٹر بولٹن کے اثر کی عکاسی کرتی ہے جو انتظامیہ میں ایران کے سب سے بڑے مخالف مانے جاتے ہیں‘ جن کی ایماء پر ہی دوہوں قبل صدر جارج ڈبیلو بش کی تہران سے بات چیت کا مرحلہ نظر انداز کیاگیا تھا۔

یہ بہت مشکل ہے کہ آیا مسٹر ٹرمپ جن کی منشا ء ہے کہ افغانستا ن او رسیریا سے امریکہ فوجی دستے واپس ہوجائیں کیاوہ مشرقی وسطیٰ کو اتنے بڑی تعداد میں امریکی دستوں کو روانہ کریں گے۔

یہ بھی واضح نہیں ہے کہ صدر امریکی دستوں کی روانگی کی تعداد یا پھر اپنے منصوبے کے دیگر تفصیلات میڈیا کے روبر و پیش کریں گے۔

پیر کے روز اس کے متعلق پوچھنے کہ کیا ایران میں حکومت کی تبدیلی چاہتے ہیں تو مسٹر ٹرمپ نے کہاکہ ”آپ خود دیکھیں ایران کے ساتھ کیاہونے والا ہے۔

اگر اس نے کچھ نہیں کیاہے‘ تو یہ بڑی فاش غلطی ہوگی“۔

انتظامیہ میں ہلکی سے تفریق اس بات پر دیکھائی دے رہی ہے کہ کشیدگی کے حالات میں ایران کاردعمل کس طرح دیا جائے جبکہ ایران کی نیوکلیئر پالیسی اورمشرقی وسطیٰ میں ان کی توجہہ کے متعلق تناؤ میں اضافہ ہورہاہے۔

کچھ امریکی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ منصوبہ ابھی نہایت ابتدائی مراحل میں ہے‘ جو بتاتا ہے کہ ایران کس قدر خطرناک بن گیا ہے۔

دیگر جو سفارتی قرارداد پر زور دے رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ یہ نئے جارحیت سے ایران کو باز رکھنے کے لئے انتباہ دینے کا حربہ ہے۔

یوروپین ساتھی جنھوں نے پیر کے روزسکریٹری برائے اسٹیٹ مائیک پامپیو سے ملاقات کی انہوں نے کہاکہ واشنگٹن اور تہران کے درمیان بڑھتی کشیدگی سے وہ الجھن کا شکار ہیں‘ اس کا امکانی حل تلاش کیاجانا چاہئے۔