عمران خان کو سزائیں

   

رہنما قافلے کا چھوٹ گیا
ناخدا قوم کا تھا چھوٹ گیا
پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کو ایک اور مقدمہ میں سات سال کی سزا سنادی گئی ہے ۔ جاریہ ہفتے انہیںسنائی جانے والی یہ تیسری سزا ہے ۔ انہیںسرکاری رازوں کے افشاء کے معاملے میں10 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی ۔ اس کے بعد سرکاری تحائف کو فروخت کرنے کے الزام میں14 سال کی سزا سنائی گئی تھی اور اب ان کے بشری بی بی سے نکاح کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے مزید 7 سال کی سزا سنائی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ عمران خان اور بشری بی بی پر فی کس پانچ لاکھ روپئے کا جرمانہ بھی عائد کردیا گیا ہے ۔ یہ ساری سزائیں عمران خان کو ملک میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات سے عین قبل سنائی گئی ہیں۔ پاکستان میں 5 فبروری کو ووٹ ڈالے جانے والے ہیں اور ان انتخابات میں حصہ لینے سے بھی عمران خان کو نا اہل قرار دیدیا گیا تھا ۔ جس طرح ملک میں انتخابات ہونے والے ہیں اور جس طرح سے ایک ہی ہفتے میں تین مقدمات کی بسرعت یکسوئی کرتے ہوئے عمران خان کو سزائیں سنائی گئی ہیں ان کو دیکھتے ہوئے یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ سارا کچھ انتقامی کارروا ئی کے طور پر کیا گیا ہے ۔ ویسے بھی پاکستان میں نظم و قانون یا قواعد وغیرہ جیسی کوئی شئے رہ ہی نہیں گئی ہے اور وہاں صرف من مانی انداز میں فیصلے کئے جاتے ہیں۔ عمران خان کے خلاف عدالتوں میں ایک ہفتے میں تین مقدمات کی یکسوئی سے یہ بھی واضح ہوگیا ہے کہ عدلیہ پر بھی حکومت کا کنٹرول ہے ۔ حکومت عدلیہ سے بھی اپنے مفادات کے پیش نظر فیصلے کروانے میں کامیاب ہو رہی ہے ۔ یہ کوئی اچھی علامت نہیں کہی جاسکتی ۔ یہ جہاںپاکستان کی جمہوریت اور اس کے جمہوری عمل کیلئے مضر ہے وہیں عدلیہ پر عوامی یقین کو ختم کرنے والا عمل بھی ہے ۔ سیاسی انتقام کے جذبہ میں قواعد و ضوابط کی صریح خلاف ورزیاں عام ہوگئی ہیں اور جس طرح سے عمران خان اور ان کے سیاسی کیرئیر کو تباہ کیا جا رہا ہے وہ ساری دنیا پر عیاں ہے ۔اس کے ذریعہ پاکستان کے سیاسی نظام کے انتشار اور اس کی مفاد پرستی کا پتہ چلتا ہے ۔ اس سے ملک کے سیاستدانوں کی شبیہہ بھی متاثر ہوتی ہے کہ وہ سیاسی مفادات کی تکمیل کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ ان ساری کارروائیوں کا مقصد عمران خان کو انتخابات میں مقابلہ کرنے سے روکنا ہی تھا ۔
سیاسی مخالفت کو انتخابی میدان میں آگے بڑھانے اور عوام پر فیصلہ چھوڑنے کی بجائے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی سیاست میں محض چند خاندان اپنے حواریوں کے ساتھ سکہ جمائے رکھنا چاہتے ہیں۔ اقتدار کو سیاسی گھرانوں تک محدود رکھتے ہوئے عوام کو بھی اپنے فیصلوں کے ذریعہ یرغمال بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ جمہوریت کو تباہ کرنے والی روایت ہے لیکن پاکستان کے حکمرانوں اور سیاسی قائدین کو ایسا لگتا ہے کہ کبھی بھی جمہوریت کے استحکام ‘ قانون کی بالادستی اور قواعد و ضوابط کو برقرار رکھنے کی کوئی پرواہ ہی نہیںرہی اور ہمیشہ ہی شخصی ‘ خاندانی اور سیاسی مفاد کو ہی ترجیح دی گئی ہے ۔ ملک کے مفادات کو ہمیشہ ہی بالائے طاق رکھا گیا ہے ۔ ماضی میںبھی سیاسی انتقام کے واقعات پیش آئے ہیںلیکن جس طرح سے عمران خان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اس کی مثال شائد ہی مل پائے ۔ یکے بعد دیگرے ایک ہی ہفتے میں تین مقدمات کی یکسوئی کرتے ہوئے انہیں مسلسل سزائیںسنایا جانا محض اتفاق یا قانونی عمل کی تکمیل نہیںہے بلکہ یہ انتقامی جذبہ کی تسکین ہے ۔ اس کے ذریعہ عمران خان کی سیاسی جماعت اور ان کے ساتھیوںکے حوصلے پست کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ عوام میں یہ تاثر عام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ عمران خان انتہائی داغدار شخصیت ہیں ۔ عمران کی شبیہہ کو بگاڑتے ہوئے ہی ان کے سیاسی مخالفین انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ملک کے اقتدار پر قابض ہوتے ہوئے من مانی کرنا چاہتے ہیں۔ اقتدار کیلئے یہ ان کی ہوس پاکستان کے وجود کیلئے انتہائی مضر ہوگئی ہے اور پاکستان کی بقاء خطرے میں پڑ گئی ہے ۔
جس طرح سے مخصوص گوشوں کی جانب سے اپنے فائدہ کیلئے مہم چلائی جا رہی ہے اور بہرصورت اقتدار پر قبضہ کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں ان سے یہ بات پوری طرح سے واضح ہوجاتی ہے کہ اس معاملے میںپاکستان کے قائدین اور حکمرانوں نے بیرونی ممالک کے دباؤ کو بھی تسلیم کرلیا ہے ۔ وہ کسی بھی قیمت پر عمران خان کو اقتدار پر واپس ہوتا دیکھنا نہیںچاہتے ۔ حالانکہ عمران خان کی پارٹی کے کچھ قائدین انتخابات میںحصہ ضرور لے رہے ہیں لیکن عمران خان کو جیل میںڈالتے ہوئے ان کے کیڈر اور دوسرے ساتھیوں کے حوصلے پست کئے جارہے ہیں اور اگر اس طرح سے عمران کے مخالفین کامیاب بھی ہوجاتے ہیں تو یہ کوئی جیت نہیں ہوگی ۔ یہ محض ضابطہ کی تکمیل اور خانہ پری ہی ہوگی تاہم وہاں کے سیاسی قائدین کو اس تاثر کی کوئی پرواہ نہیں ہے اور وہ صرف اقتدار چاہتے ہیں۔
واہ قانون ساز و قانون کے رکھوالے !!
ممبئی کے قریب تھانے شہر کے ایک پولیس اسٹیشن کا ویڈیو وائرل ہو رہا ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ بی جے پی کے رکن اسمبلی گنپت گائیکواڈ اپنی حلیف جماعت شیوسینا ( شنڈے گروپ ) کے ضلع صدر مہیش گائیکواڈ پر فائرنگ کر رہے ہیں۔ یہ واقعہ ایک اراضی تنازعہ کے سلسلہ میں پیش آیا ہے ۔ پولیس اسٹیشن میں بات چیت کے دوران اچانک ہی بی جے پی رکن اسمبلی نے فائرنگ کردی ۔ اس واقعہ نے کئی سوال پید اکردئے ہیں۔ سب سے پہلے تو پولیس اسٹیشن میںاراضی تنازعہ کی بات چیت پر ہی سوال پیدا ہو رہا ہے ۔ اس کے علاوہ قانون بنانے کی ذمہ داری والے بی جے پی رکن اسمبلی خود قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فائرنگ کر رہے ہیں۔ انہوں نے دو راونڈ فائرنگ کی ۔ دوا فراد اس میں زخمی ہوئے ہیں۔ پولیس نے رکن اسمبلی گنپت گائیکواڈ کو گرفتار تو کرلیا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پولیس اسٹیشن کے اندر انہیںبندوق لانے اور فائرنگ کرنے کا موقع کیوں دیا گیا ۔ اراضی تنازعہ کی یکسوئی کی پولیس اسٹیشن میں کوشش کیوں کی گئی ۔ قانون بنانے والوں اور قانون کی رکھوالی کرنے والوں سبھی پر یہ ویڈیو سوال پیدا کرتا ہے اور مہاراشٹرا کی ایکناتھ شنڈے حکومت کو یہ وضاحت کرنی چاہئے کہ اس کے قائدین اور ذمہ داران کی اس حرکت کی کیا حکومت پر ذمہ داری عائد نہیں ہوتی ۔ محض رکن اسمبلی گرفتاری پر اکتفاء نہیں کیا جانا چاہئے بلکہ پولیس اسٹیشن کے سارے عملہ کو بھی جوابدہ بنائے جانے کی ضرورت ہے ۔