عوام کا حوصلہ لائق تحسین

   

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
کورونا وائرس نے جہاں تمام لوگوں کی زندگی کو متاثر کیا ہے ۔ وہی تمام حکمرانوں کو بھی چڑچڑا کر دیا ہے ۔ امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے لے کر ہندوستان کے وزیراعظم یا پھر تلنگانہ کے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ تک کی مزاج میں تبدیلی آئی ہے ۔ مگر اس لاک ڈاؤن کے دوران جو اہم بات سیکھنے کو ملی وہ یہ ہے کہ ان حکمرانوں نے عوام کو بے وقوف بنانے یا خوف زدہ رکھنے کا ایک نیا ہنر پالیا ہے ۔ کسی بھی ملک میں رہنے والا انسان بے بس ہے ۔ چاہے ترقی کے جتنے مرضی زینے طئے کرلے ، آسائشوں کے انبار لگالے کچھ بھی ہمیشہ کے لیے نہیں رہتا ۔ اس وائرس نے اچھے اچھوں کے چھکے چھڑا دئیے تو غریبوں کے حوصلے بڑھا دئیے ۔ ان غریبوں کا حوصلہ یوں بڑھا کہ وہ حکومتوں یا اپنے مالدار آجروں کی مدد کے بغیر ہی زندگی کی مشکل اور طویل راہول پر اکیلے چلنے کا عزم کرلیا ۔ خود کو مضبوط و متحد کر کے اپنی منزل پانے کے لیے سڑکوں پر پیدل چل پڑے ۔ وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے حکومتوں نے بہت کچھ کام کرنے کا دعویٰ کیا ہے لیکن وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد دن بہ دن بڑھ رہی ہے ۔ 60 دن کے لاک ڈاون کے باوجود وائرس متاثرین کی تعداد میں کمی نہیں آئی ، لیکن حکومتوں نے لاک ڈاؤن میں نرمی لائی اور بازار کھول دئیے ۔ یہ ایک طرح کی ہمت ہے یا پھر نئی مصیبت کو دعوت دینے کی حماقت ، یہ تو آئندہ چند دنوں میں معلوم ہوگا ۔ کورونا نے کئی زندگیوں کو بہتر بنایا ہے ۔

لوگوں میں ٹائیم مینجمنٹ اور ڈسپلن میں بہتری لائی ہے ۔ اس کے علاوہ جو لوگ اپنی دن رات کی مصروفیات کا بہانہ بناکر کمیونیکیشن سے دور رہتے تھے ان 60 دنوں میں ان کے اندر کمیونیکیشن کی صلاحیت بڑھی ہے ۔ جہاں تک کورونا وائرس کے بعد کے حالات کا سوال ہے ان لاک ڈاؤن کے دنوں کے دوران لوگوں نے جو کچھ سیکھا ہے ۔ گھروں میں بند رہ کر زندگی کی پائیداری ، گھر میں رہنے کے فوائد و نقصانات ، آسائشات زندگی سے چھٹکارا ، نظم و ضبط ، رابطے میں رہنے کے فوائد اور اپنی ذات کو وقت دینے کی اہمیت بھی سمجھ آگئی ہے ۔ آلودگی کم ہوئی ہے ۔ پلاسٹک کے استعمال میں کمی آئی ہے ۔ عوام کے اندر احتیاط برتنے کی قدرت پیدا ہوئی ہے اور احتیاط ہی وقت کی ضرورت ہے ۔ کورونا وائرس نے ان لوگوں کے پیروں میں بھی بیڑیاں ڈالدیں جو تیزی سے اڑنے کی کوشش میں آداب زندگی کو تباہ کررہے تھے ۔ لیکن اس وائرس نے حکمرانوں کی آداب حکمرانی و ذمہ داری چھین لی ہے ۔ اس لیے یہ برسر اقتدار انسان دوسرے انسانوں کو حقیر سمجھ رہے ہیں ۔ مرکز کی مودی حکومت نے مزدوروں میگرنٹس کو حقیر سمجھا ہے تو تلنگانہ کے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کو خود کو تمام سے بالاتر ہونے کی حماقت آگئی ہے ۔ کے سی آر بھی خود کو صدر امریکہ ٹرمپ کی طرح حکمراں سمجھ رہے ہیں اور صحافیوں کے مشکل اور تلخ سوالات کا جواب دینے کے بجائے انہیں دھمکیاں دے کر چپ کرارہے ہیں ۔

ریاست تلنگانہ میں کورونا وائرس کے بارے میں چیف منسٹر کے سی آر نے متواتر پریس کانفرنسیں کی ہیں ۔ ہر کانفرنس میں صحافیوں کے ساتھ ان کا رویہ قابل مذمت رہا ہے ۔ کئی پریس کانفرنس تو صحافیوں کے ساتھ تلخ رویہ پر ہی ختم ہوئی ہیں ۔ جب چیف منسٹر سے کوئی صحافی یہ سوال کرے کہ ریاست میں کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے ریاستی حکومت نے کس حد تک ذمہ دارانہ رول ادا کیا ہے تو کے سی آر بھڑک جاتے ہیں ۔ ریاست میں فیس ماسک کی کمی کی جانب توجہ دلائی جائے یا ہینڈ سنیٹائزر کی کمی کا سوال اٹھایا جاتا ہے تو وہ یہ سوال کرنے والے کو ہی ڈرا دھمکاکر بیٹھا دیتے ہیں ۔ سوال کا مناسب جواب دینے کے بجائے کے سی آر دھمکی پر اتر آتے ہیں ۔ ملک گیر سطح پر لاک ڈاؤن کے دوران ریاستی حکومتوں کی جانب سے چلائی جارہی اسکیمات کے بارے میں اور مرکز کی جانب سے ملنے والی امداد کے بارے میں سوال کیا جائے تو چھڑک دیتے ہیں ۔ مقبول عام تلگو اخبار کے صحافی نے کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں کی حفاظت اور ان کے لیے حفاظتی کٹس کی کمی کا سوال اٹھایا تو کے سی آر کو غصہ آگیا اور صحافی پر برس پڑے کہ وہ جھوٹی خبریں پھیلا رہے ہیں ۔

آخر تم سے یہ کس نے کہا کہ ہمارے پاس ڈاکٹروں کے لیے حفاظتی کٹس نہیں ہیں ؟ کیا تم کو معلوم ہے کہ تلنگانہ میں اس وقت کتنے حفاظتی کٹس ہیں ۔ ڈاکٹروں کی ہمت افزائی کرنے کے بجائے یہ اخبار والے ان کی جانوں کو خطرے ہونے کی جھوٹی خبریں پھیلا رہے ہیں ۔ چیف منسٹر کی اس غیر ضروری برہمی کو دیکھ کر کئی صحافیوں نے کہا کہ اگر چیف منسٹر کو سوال کا جواب دینا نہیں تھا تو وہ اس سوال کو ٹال سکتے تھے لیکن انہوں نے صحافیوں کی تذلیل کرتے ہوئے اپنی حکومت کی ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش کی ۔ تلنگانہ میں ہو یا مرکز میں اس وقت سیاسی گھرانے یا حکمراں طاقتوں کے پاس میڈیا کا کنٹرول ہے ۔ کئی میڈیا اداروں پر انہی لوگوں کی اجارہ داری ہے ۔ چند مٹھی بھر صحافی ہی صحافت کے آزادانہ حقوق کا پرچم اٹھاکر احتجاج کرتے ہیں ورنہ تمام میڈیا کے لوگ حکومت کی ہاں میں ہاں بلکہ اس کی مداح سرائی میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے ۔ حکمراں کی نیت ٹھیک نہیں ہے تو ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا لیکن کورونا نے ان کی انا کو ضرور ٹھیس پہونچائی ہے اپنی تمام ناکامیوں کو چھپانے کے لیے پٹھو میڈیا کے استعمال کے باوجود حکومت کی خرابیاں اور ناکامیاں بغلیں جھانک رہی ہیں ۔ صرف عوام ہی ہیں جنہوں نے ذاتی طور پر کورونا کو پیچھے چھوڑ دیا ہے یا کچھ تو کورونا کے ساتھ جینے کی ہمت دکھائی ہے ۔ اس وباء سے کوئی بھی ڈرا نہیں ہے ۔ احتیاط کے ساتھ مستقبل کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ کچھ لوگوں کے نزدیک یہ وباء اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک وارننگ ہے کیوں کہ ان کو محسوس ہوا ہے کہ جب دنیا میں انسانی حقوق کی پامالی ہوئی ہے تو قدرت کا قہر نازل ہوتا ہے ۔ ہندوستان میں کشمیر سے لے کر آسام تک اور آسام سے لے کر سارے ملک میں صرف ایک ہی طبقہ کو نشانہ بنانے والے قدرت کے اس قہر کا شکار ہوتے جارہے ہیں ۔

کسی کے لیے یہ کورونا وائرس متمول انسانوں کی غلطیوں کا نتیجہ ہے یا ان ملکوں کی جنگ ہے جو ایک دوسرے کی برتری کو ختم کرنے کی فراق میں ہیں ۔ اب دنیا کے چند دانش مند لوگ کورونا وائرس کی وباء کو پھیلانے والوں کی طرف اشارہ کررہے ہیں ۔ کچھ کا کہنا ہے کہ دنیا کی بڑی طاقتوں کا غرور توڑنے کے لیے اس وائرس کو پھیلایا گیا ہے ۔ اس طرح اب ساری دنیا میں بہت کچھ تبدیلیاں آتے جارہی ہیں ۔ ہندوستان میں جس طرح دستور اور قوانین میں تبدیلیاں لائی گئی ہیں جس طرح تلنگانہ میں حکمراں نے اپنے مزاج کو نرم سے سخت کرلیا ہے ۔ ایسے ہی چند انسان ہوتے ہیں جن کے پاس تھوڑی سی طاقت آنے پر انسانوں کو حقیر نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ آج ساری دنیا جس وائرس کے خطرے کا شکار ہے یہ بھی ایک مغرور اور متمول انسان کی کارستانی سمجھی جارہی ہے ۔ جس طرح دنیا کے ایک ملک روانڈا میں نسل کشی کے ذریعہ 8 لاکھ انسانوں کا قتل عام کردیا گیا تھا اور یہ قتل عام کروانے والا حال ہی میں گرفتار کرلیا گیا ۔ 1997 میں اس پر مخالف قبیلے کے قتل عام کی سرپرستی کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا ۔ 1980 اور 1990 کے دوران روانڈا میں صرف متمول افراد کی جانب سے انسانوں کی نسل کشی کے لیے امداد دی گئی تھی اسی طرح آج ساری دنیا میں انسانی نسل کشی کے لیے چند مٹھی بھر متمول افراد اپنے شوق کو پورا کرتے ہوئے تماشہ دیکھ رہے ہیں ۔ ان تماشہ بین میں ہندوستان کے حکمراں میں بھی تلنگانہ کے ذمہ دار بھی شامل ہیں ۔ لیکن عوام نے جس طرح کی ہمت اور حوصلہ کا مظاہرہ کیا ہے وہ لائق تحسین ہے ۔۔