عوام کو راحت رسانی میں سیاست

   

ملک میں سیاسی جماعتوں کے مابین اختلافات کوئی نئی بات نہیں ہیں ۔ یہ سیاسی اختلاف ہی ہے جس کے نتیجہ میں جمہوریت کو استحکام اور تقویت حاصل ہوتی ہے ۔ سیاسی جماعتیں اپنے اپنے نقطہ نظر کو عوام کے سامنے پیش کرتی ہیں اور عوام جسے مناسب سمجھیں قبولیت کی سند اپنے ووٹ کے ذریعہ عطا کرتے ہیں۔ ہندوستانی جمہوریت کی یہ انفرادیت ہے کہ یہاں اختلاف رائے کا احترام کیا جاتا ہے ۔ تاہم حالیہ چند برسوں میں دیکھا گیا ہے کہ سیاسی اختلافات کو دشمنی کی حد تک پہونچایا جا رہا ہے ۔ کسی ایک جماعت کی حکمرانی ہوتی ہے تو دوسری جماعتیں اس کے ہر کام میں نقص نکالنے کو اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اس کے کام میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی بھی کوششیں ہوتی ہیں۔ کبھی عدالتی دروازے کھٹکھٹاتے ہوئے رکاوٹیں پیدا کی جاتی ہیں تو کبھی احتجاج کے راستے سے مسائل پیدا کئے جاتے ہیں۔ حد تو یہ ہوگئی ہے کہ اگر کسی ریاست میں ایک جماعت کی حکومت ہے تو مرکز میں دوسری جماعت کی حکومت اس کے کام کاج میں اپنے اختیارات کا بیجا استعمال کرتے ہوئے مداخلت کرتی ہے ۔ ریاستی حکومتوں کے کام کاج کی نوعیت کو سمجھا نہیں جاتا ۔ اس بات کا جائزہ نہیں لیا جاتا کہ عوام کا فائدہ ہو رہا ہے یا نہیں۔ عوام کو راحت پہونچائی جا رہی ہے یا نہیں۔ عوامی مفادات کی تکمیل ہو رہی ہے یا نہیں۔ ساری صورتحال میں صرف ایک پہلو ہوتا ہے اور وہ سیاسی اختلاف رائے ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ سارے ملک میں ایک ہی جماعت اور ایک ہی حکومت کا سکہ چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ یہ ہمارے وفاقی نظام کے خلاف ہے ۔ حالیہ عرصہ میں دیکھنے میں آیا ہے کہ مرکز کی بی جے پی حکومت نے ان ریاستی حکومتوں کے کام کاج میں محض سیاسی اختلاف کی بناء پر رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جہاں غیر بی جے پی جماعتوں کی حکومتیں ہیں۔ ان حکومت کے ساتھ مرکز کا رویہ معاندانہ اور جانبدارانہ بھی رہا ہے ۔ مرکز کی امداد رسانی کے معاملے میں بھی جانبداری سے کام لیا گیا ہے ۔ کہیں ضرورت سے زیادہ فراخدلی دکھائی گئی ہے تو کہیں ضرورت سے بہت کم ہاتھ کھولا گیا ہے ۔
اب دہلی حکومت کی جانب سے عوام کے گھروں تک راشن سربراہی کی اسکیم کو مرکز نے رکوادیا ہے ۔ نریندر مودی حکومت کا استدلال ہے کہ دہلی کی حکومت نے اس اسکیم کیلئے مرکز سے اجازت نہیں لی ہے ۔دہلی کی حکومت بھی عوام کے ووٹوں سے ہی منتخب ہوئی ہے اورا سے اپنے کسی اسکیم کیلئے مرکز سے اجازت حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس کے باوجود کجریوال حکومت کے ایک اچھے کام میں رکاوٹ پیدا کی گئی ہے ۔ اگر ریاستی حکومت کیلئے اجازت کا حصول لازمی بھی ہے تب بھی مرکز کو ریاستی حکومت کی سرزنش کرتے ہوئے آئندہ کیلئے انتباہ دینا چاہئے تھا اور فی الحال فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسکیم کے نفاذ میں رکاوٹ پیدا کرنے سے گریز کیا جانا چاہئے تھا ۔ تاہم ایسا نہیں کیا گیا کیونکہ کجریوال حکومت سے بی جے پی کے شدید سیاسی اختلافات ہیں۔ دہلی میں ہر ممکنہ جدوجہد کے باوجود بی جے پی کامیابی حاصل نہیں کر پا رہی ہے ۔ کجریوال پر دہلی کے عوام نے اٹوٹ بھروسے کا اظہار کیا ہے اور انہیں مثالی اکثریت سے کامیابی دی ہے ۔ بی جے پی کیلئے یہ حقیقت ہضم نہیں ہو رہی ہے ۔ اسی لئے کجریوال حکومت کے کام کاج میں رخنہ اندازی کی جا رہی ہے ۔ عوام میں حکومت کے تعلق سے بدگمانیاں پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ بی جے پی اس حقیقت کو تسلیم نہیں کر رہی ہے کہ ایسی کوششوں کا الٹا اثر ہو رہا ہے اور عوام میں اس کے تعلق سے ناراضگی پیدا ہو رہی ہے اور وہ عوامی تائید سے محروم ہوتی جا رہی ہے ۔
کورونا ٹیکہ کی سربراہی میں بھی دیکھا گیا کہ مہاراشٹرا اور دہلی سے جانبداری برتی گئی ۔ بی جے پی اقتدار والی ریاستوں کو ان کی ضروریات سے زیادہ ٹیکے فراہم کئے گئے ۔ دوسری غیر بی جے پی اقتدار والی ریاستوں کے ساتھ بھی یہی رویہ اختیار کیا گیا ۔ جب گذشتہ دنوں طوفان نے تباہی مچائی تو گجرات کو کسی طلب کے بغیر 1000 کروڑ روپئے فراہم کرنے کا اعلان ہوگیا جبکہ مغربی بنگال ‘ جھارکھنڈ اور اوڈیشہ کیلئے مشترکہ طور پر 1000 کروڑ روپئے فراہم کئے گئے ۔ مغربی بنگال اور اوڈیشہ میں زیادہ تباہی آئی تھی لیکن اس کا بھی خیال نہیں کیا گیا ۔ مرکز کو اپنے اس جانبدارانہ رویہ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے تاکہ وفاقی طرز حکمرانی کا وقار متاثر نہ ہونے پائے ۔