عید کیا ہے؟

   

م۔ ق۔ سلیم
عید کی حقیقی روح کیا ہے؟۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ ’’ہماری عید اس دن ہے، جس دن ہم سے کوئی گناہ سرزد نہ ہو‘‘۔ دراصل عید کی اصل روح گناہوں سے پاکی اور براء ت پر اظہار مسرت اور سجدہ شکر بجالانا ہے۔عید الفطر، رمضان المبارک کے روزوں کی تکمیل کے بعد آتی ہے۔ روزوں کی فرضیت کا مقصد قرآن کریم میں یہ بتایا گیا ہے کہ اس کے ذریعہ اپنے اندر تقویٰ پیدا ہو۔ عید کا لفظ کوئی نیا نہیں، عید اپنے ظاہری اور مشہور معنی کے اعتبار سے فرحت و مسرت سے عبارت ہے۔ انسان کی فطرت میں رنج و خوشی دونوں ہی احساسات ودیعت کئے گئے ہیں، اس لئے جب کوئی خوشگوار واقعہ انسان پر گزرتا ہے تو وہ خوشی کا اظہار کرتا ہے اور اگر غم و اندوہ، حزن و ملال کا واقعہ ہوتا ہے تو اظہار غم کرتا ہے۔ اس لئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عید (تہوار) کا تصور ابتدائے آفرینش سے ہی انسانی معاشرے میں ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ ’’ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور یہ ہماری عید ہے‘‘۔ ماضی و حال کی کوئی ایسی قوم نہیں، جو اس تصور سے خالی ہو، فرق اگر ہے تو صرف یہ کہ دیگر قوموں کے یہاں عید اور تہوار کسی شخصیت کی پیدائش اور دشمن پر فتح حاصل ہونے پر مناتے ہیں، جب کہ اسلام میں اسے رمضان المبارک سے مربوط کیا گیا ہے، جو اللہ کی طرف سے رحمت و مغفرت اور نزول قرآن کا مہینہ ہے۔ یہ رمضان سے جڑ جانے کی وجہ سے اس کا حسن اختتام ہے۔

اللہ تعالی نے صرف مسرت و خوشی کے دن کو ہی اجتماعی سطح پر منانے کا حکم دیا ہے۔ غم و ماتم کے اظہار کے لئے کوئی دن مقرر نہیں کیا اور نہ ہی اس کے لئے کوئی حکم دیا۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ اسلام حوصلے اور امید و مسرت کا دین ہے، مایوسی اور دل شکستگی کا دین نہیں۔لغوی اعتبار سے عید کے بہت سے معنی بیان کئے گئے ہیں۔ اس کی وجہ متعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بعض اس سے مطلق فرحت و مسرت کے معنی مراد لیتے ہیں اور بعضوں کے مطابق عید کو عید کہنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ بار بار لوٹ کر آتی ہے۔ لیکن عید کی اصل روح کے اعتبار سے اس سے قریب تر معنی وہ ہیں، جنھیں ان لفظوں میں بیان کیا گیا ہے۔ ’’عید کو عید کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس دن اللہ تعالی کی طرف سے بکثرت نفع کی چیزیں بندوں کو عطا کی جاتی ہیں، جن میں سے اہم گناہوں کی مغفرت ہے‘‘۔ جس کی تصدیق مختلف احادیث مبارکہ سے بھی ہوتی ہے۔ ایک حدیث شریف میں ہے کہ جب عید الفطر کا دن آتا ہے تو فرشتے راستوں کے کنارے کھڑے ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں ’’اے مسلمانو! اپنے رب کی طرف چلو، جو بڑا کرم کرنے والا ہے، جو بھلائی کی باتیں بتاتا ہے، اس پر عمل کرنے کی توفیق دیتا ہے اور پھر اس پر انعام دیتا ہے۔ تمھیں قیام اللیل کا حکم دیتا ہے کہ تم نمازیں پڑھو اور دن میں روزے رکھنے کا حکم دیا گیا تو تم نے روزے رکھے اور اپنے رب کی اطاعت کی، پس تم اپنے رب سے انعام حاصل کرو‘‘۔ پھر جب نماز عید پڑھ چکے تو خدا کا ایک فرشتہ اعلان کرتا ہے کہ ’’اے لوگو! بے شک تمہارے رب نے تمہاری مغفرت فرمادی، تم کامیابی کے ساتھ اپنے گھروں کو لوٹو‘‘۔ یہ انعام کا دن ہے اور آسمانوں میں اس کو یوم الجائزہ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک اور حدیث شریف میں ہے کہ اللہ رب العزت فرشتوں سے مخاطب ہوکر کہتا ہے کہ ’’فرشتو! میں تمھیں گواہ بناتا ہوں، ان لوگوں کے روزوں اور عبادات کے بدلے میں ان سے راضی ہوا اور ان کی مغفرت فرمادی‘‘۔