غریب لوگوں کے بچے قدم قدم پہ مریں

   

رشیدالدین
’’ہندی چینی بھائی بھائی‘‘۔ 2014 ء اور پھر 2019 ء میں چین کے صدر ژی جن پنگ کے دورۂ ہندوستان کے موقع پر یہ نعرہ خوب سنائی دیا۔ نریندر مودی چینی صدر کے استقبال میں بچھے جارہے تھے۔ چینی صدر کے ساتھ جھولا جھولتے ہوئے دوستی کے وعدے اور معاہدے کئے گئے۔ نریندر مودی وزیراعظم کے عہدے پر نئے نئے تھے اور ایک طاقتور ملک کے صدر کا سامنا ہوتے ہی بے قابو ہوگئے۔ مہمان صدر کی باڈی لینگویج کو سمجھے بغیر یکطرفہ عاشقی کرنے لگے۔ مودی امریکہ سے روایتی دوستی کو بھول کر اُس کے حریف کو اپنا ہمدرد اور بہی خواہ سمجھ بیٹھے۔ شاید وہ دو کشتیوں میں بیک وقت سواری کا ریکارڈ قائم کرنا چاہتے تھے۔ امریکہ کو ہند ۔ چین بڑھتی قربت ناگوار گزری لیکن مودی دونوں ممالک کو دوستی کے بندھن میں باندھنے پر مُصر تھے۔ 2019 ء میں چینی صدر جب دوسری بار ہندوستان آئے تو چینائی میں مودی کے ساتھ چہل قدمی کی۔ احمدآباد ہوکہ چینائی دونوں مواقع پر جب کبھی دونوں قائدین تنہا دکھائی دیئے تو مودی کچھ زیادہ ہی باتیں کرتے دیکھے گئے جبکہ چینی صدر زیادہ تر اشاروں سے جواب دے رہے تھے۔ ہر کوئی حیرت میں تھا کہ دونوں آخر کس زبان میں بات کررہے ہیں۔ گرمجوشی دیکھ کر شبہ ہونے لگا تھا کہ گویا چینی صدر نے ہندی اور مودی نے چینی زبان سیکھ لی ہے۔ اگر ایسا نہیں تھا تو پھر مودی کے الفاظ زیادہ اشاروں کی زبان سمجھ رہے تھے۔ حکمرانی اور بالخصوص خارجہ پالیسی کے رموز سے واقفیت نہ ہو تو یہی حال ہوتا ہے۔ احمدآباد کے دورہ کے بعد چین نے ڈوکلم تنازعہ کا تحفہ دیا لیکن پھر بھی مودی نے ہوش کے ناخن نہیں لئے۔ ایک ریاست کے چیف منسٹر سے راست وزیراعظم کی کرسی تک پہونچ گئے۔ اِسی طرح یوپی کے چیف منسٹر سے وزیرداخلہ اور پھر وزیر دفاع بن گئے راجناتھ سنگھ۔ گجرات کے وزیرداخلہ سے امیت شاہ ملک کے وزیرداخلہ کے عہدہ پر فائز ہوگئے۔ اِن تینوں کو خارجہ پالیسی اور داخلی سلامتی کے خطرات اور ضرورتوں کے بارے میں کوئی تجربہ نہیں ہے اور یہی تینوں حکومت کے اہم ستون ہیں۔ بیرونی سربراہوں کو دیکھتے ہی گلے پڑجانا مودی کی مجبوری ہے۔

پہلی بار سامنا ہوتے ہی گلے ملنا سمجھ میں آتا ہے اور موقع بے موقع گلے مل کر نریندر مودی عالمی قائدین کو حیرت زدہ کرتے رہے ہیں۔ کسی نقاد نے کہاکہ گھر میں گلے ملنے والے نہ ہوں تو آدمی ہر کسی کے گلے پڑجاتا ہے۔ الغرض نریندر مودی نے چینی صدر سے بار بار گلے مل کر اپنی دانست میں سمجھا کہ انھیں اپنی محبت اور دوستی کا اسیر بنارہے ہیں۔ عالمی سیاست اور سوپر پاورس کی چالبازیوں سے ناآشنا نریندر مودی دھوکہ کھا گئے۔ دوستی میں اظہار گرمجوشی کے لئے مودی گلے مل رہے تھے لیکن اُنھیں کیا پتہ تھا کہ چینی صدر اُن کے سینے کا سائز دیکھ رہے تھے۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ واقعی مودی کا سینہ 56 انچ کا ہے۔ وزیراعظم بننے سے پہلے ہی مودی کے 56 انچ کے سینے کا خوب پرچار کیا گیا۔ دو مرتبہ ہندوستان آکر ژی جن پنگ نے جب دیکھ لیاکہ جب 56 انچ کا سینہ محض پروپگنڈہ ہے تو اُنھوں نے لداخ میں ہندوستان کے خلاف سازش تیار کی اور کئی کیلو میٹر تک گھس پیٹھ کے ذریعہ ہندوستانی علاقہ پر قبضہ کرلیا۔ چین میں مشہور کہاوت ہے ’’بحران میں موقع ہوتا ہے‘‘ اُسی پر عمل کرتے ہوئے چین نے سرحدی علاقوں پر اُس وقت قبضہ جمایا۔ جب ساری دنیا کورونا بحران سے گزر رہی ہے۔ دنیا میں کورونا کے پھیلاؤ کے لئے چین کو ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے کیوں کہ وائرس کا جنم چین میں ہوا۔

عالمی سطح پر کورونا کے لئے سوالات کا سامنا کرنے والے چین نے کہاوت کے عین مطابق دنیا کی توجہ حقیقی مسئلہ سے ہٹانے کے لئے ہندوستان کو آسان شکار بنالیا۔ ڈوکلم تنازعہ کے بعد ہی چین پر اندھا بھروسہ کرنے کا خمیازہ 20 فوجی جوانوں کی موت کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ 1962 ء کی جنگ اور پھر 1967 ء اور 1975 ء کی جھڑپوں کے بعد چین نے ہندوستانی فوجیوں کو ٹارگٹ کیا ہے۔ اپریل میں چینی افواج کی پیش قدمی کے وقت اگر ہندوستان سخت قدم اُٹھاتا تو 20 جانباز جوانوں کی موت واقع نہ ہوتی۔ چین کے ناپاک منصوبوں کے بارے میں ہندوستان تاریکی میں کیسے رہا۔ ملک کی ملٹری انٹلی جنس کی ناکامی نہیں تو اور کیا ہے کہ چین نے دھوکے سے ہمارے جوانوں کو گھیر لیا لیکن فوج اِس منصوبے سے لاعلم تھی۔ ٹیکنالوجی اور سیٹلائیٹ کے اِس دور میں دشمن کی نقل و حرکت پر نظر رکھنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ ہم اپنی افواج کے نقصان کی تعداد تو بتارہے ہیں لیکن دشمن کے نقصان کے بارے میں وثوق سے کہنے سے قاصر ہیں۔ یو پی اے کے 10 سالہ دور میں چین کی ہمت نہیں ہوئی کہ فوجیوں پر بُری نظر ڈالے۔ ملائم سنگھ یادو اور جارج فرنانڈیز نے وزیر دفاع کی حیثیت سے کہا تھا کہ چین ہمارا دشمن نمبر ایک ہے۔ پاکستان اور چین کے بارے میں نریندر مودی اور راجناتھ سنگھ ہمیشہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کو للکارتے رہے۔ اکٹوبر 2013 ء میں راجناتھ سنگھ نے ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے چین کی دراندازی کو لے کر کہا تھا کہ اگر منموہن سنگھ کے کلیجہ میں دَم نہیں تو فوج کو فری ہینڈ دیں، وہ کرشمہ کردکھائے گی۔ سوال یہ ہے کہ 56 انچ کا سینہ اور کلیجہ میں دَم رکھنے والے 20 جوانوں کی موت پر خاموش کیوں ہیں۔ فوج کو چین سے نمٹنے کے لئے فری ہینڈ کیوں نہیں دیا گیا۔ پتہ یہ چلا کہ ملک کی سالمیت اور سرحدوں کی حفاظت کے لئے 56 انچ کے سینے کی نہیں بلکہ مضبوط حوصلے اور کامیاب خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے۔

مودی حکومت نے 20 جوانوں کی قربانیوں کو صرف ایک دن میں بھلا دیا۔ وزیراعظم نریندر مودی ملک کی معیشت اور کانکنی جیسے مسائل پر خطاب کے لئے ٹیلی ویژن پر دکھائی دیئے لیکن اُنھوں نے چین کی بزدلانہ کارروائی کے خلاف قوم سے خطاب کرنے کی ہمت نہیں کی۔ آخرکار قوم کو حقیقت سے واقف کرانے میں خوف کس بات کا ہے۔ مودی کو 20 جوانوں کی قربانی سے بڑھ کر اور کسی نقصان کا شائد انتظار ہے اُس وقت وہ قوم سے خطاب کریں گے۔ چین کے خلاف مودی کا ردعمل انتہائی کمزور اور روایتی انداز کا تھا۔ حد تو یہ ہوگئی کہ ہندوستان پڑوسی نیپال سے بھی خوفزدہ ہے۔ نیپال نے ہندوستان کے 3 علاقوں پر اپنا دعویٰ پیش کرتے ہوئے ملک کا نیا نقشہ جاری کردیا۔ اتنا ہی نہیں نیپال کی پولیس نے ہندوستانیوں پر فائرنگ کرکے دو شہریوں کو ہلاک کردیا۔ یہ سب ہوتا رہا لیکن نریندر مودی حکومت ’’مناسب جواب‘‘ کی قوم کو تسلی دیتی رہی۔ آخر وہ وقت کب آئے گا جب ہندوستان اپنی مردانگی کا مظاہرہ کرے گا۔ ویسے بھی پڑوسیوں میں سوائے مالدیپ کے دیگر تمام سے ہندوستان کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ سری لنکا اور بنگلہ دیش سے مختلف اُمور پر تنازعات جاری ہیں۔ پاکستان تو ہندوستان کا ازلی دشمن ہے۔ اب دو نئے حریف چین اور نیپال کی شکل میں منظر عام پر آئے ہیں۔ مودی کی حلف برداری میں تمام پڑوسیوں کو مدعو کیا گیا تھا لیکن کتنے پڑوسی ایسے ہیں جنھوں نے چین کی جارحیت کی مذمت کی ہو۔ 20 جوانوں کی قربانی پر محض دو منٹ کی خاموشی وہ بھی چیف منسٹرس کی ویڈیو کانفرنس میں، فوج کے ساتھ ایک مذاق ہے۔

یہ وقت دو منٹ کی خاموشی کا نہیں بلکہ منہ توڑ جواب دینے کا ہے۔ حکومت اگر سرحد اور سپاہیوں کی حفاظت میں ناکام رہے تو اُسے اقتدار پر رہنے کا کوئی حق نہیں۔ ایسا شخص ملک کا وزیر دفاع ہے جو ملک کی سرحدوں سے صحیح واقف نہیں اور وہ زبانی طور پر سرحدوں کی وضاحت نہیں کرسکتے۔ اگر یہی حرکت پاکستان کرتا تو سرجیکل اسٹرائیک اور دوسرے کئی اسٹرائیک کئے جاتے، بھلے ہی وہ نشانے پر نہ لگیں۔ پاکستان کے خلاف کئی دنوں تک کارروائی جاری رہتی لیکن چین کے معاملہ میں صرف چند گھنٹوں میں معاملہ ختم ہوگیا۔ پاکستان کے ساتھ سرجیکل اسٹرائیک اور چین کے ساتھ بھیگی بلّی والا معاملہ قوم کے وقار کے شایان شان نہیں۔ افسوس تو اِس بات کا ہے کہ اِس قدر بھاری نقصان کے باوجود ہندوستان نے وزیر خارجہ جئے شنکر کے ذریعہ بات چیت کی پہل کی۔ بی جے پی ، آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کی زبانیں چین کے خلاف بند ہیں۔ اِن قوم پرستوں کو سرحد پر بھیجنا چاہئے تاکہ حب الوطنی کا ثبوت دے سکیں۔نامور شاعر شمسی مینائی نے کیا خوب کہا ہے :
غریب لوگوں کے بچے قدم قدم پہ مریں
کسی وزیر کا بیٹا کہیں شہید ہوا