غلام نبی آزاد نے تین طلاق بل پر کہا کہ”حقیقی منشاء انہیں (مسلمانوں) کو ان کے گھیروں میں ختم کرنا ہے“

,

   

غلام نبی آزاد نے کہاکہ یہ ائیڈیامسلم کمیونٹی کو ”ختم“ کرنے کا ہے۔ انہو ں نے کہاکہ کچھ پارٹیاں اور مذکورہ حکومت ہجومی تشدد کے واقعات سے بدنام ہوگئی ہیں

نئی دہلی۔ مذکورہ مسلم ویمن(پروٹکشن آف رائٹس ان میریج) بل کی مخالفت کرتے ہوئے لیڈر آف اپوزیشن غلام نبی آزاد نے کہاکہ بل کانام ”بدنام شدہ“ ہے کیونکہ اس کی حقیقی منشاء ”مسلم خاندانوں کو تباہ کرنا“ ہے۔

غلام نبی آزاد نے کہاکہ یہ ائیڈیامسلم کمیونٹی کو ”ختم“ کرنے کا ہے۔

انہو ں نے کہاکہ کچھ پارٹیاں اور مذکورہ حکومت ہجومی تشدد کے واقعات سے بدنام ہوگئی ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ”لہذایہ بہتر ہوگا کہ مذکورہ (مسلم) گھر والوں کو ان کے اپنے گھر کے چراغوں میں جلنے کے لئے چھوڑ دیاجائے‘ گھر جل جائیں گے اور کوئی اعتراض کرنے والے نہیں ہوگا۔

لہذا اگر یہ اس خاندان کو ختم کرنا ہے تو انہیں ان کے گھروں میں ختم کروں‘ ایسا قانون بناؤ‘یہی ان کی اصل منشاء ہے“۔

حقیقی بل میں بے شمار تبدیلیوں کے متعلق حکومت کی بحث کو انہوں نے مسترد کرتے ہوئے کہاکہ ”آپ نے دکھاوے کی سرجری کی ہے۔

بیماری ختم نہیں ہوئی ہے“۔

ایوان کے دیگر اپوزیشن لیڈروں کے طرز پر آزاد نے زوردیاکہ مسلم شادیاں ایک سیول کنٹراکٹ ہیں اور حکومت کو کو ایک سیول کنٹراکٹ کو ”مجرمانہ شکل“ دینے کا مورد الزام ٹہرایا۔

انہوں نے کہاکہ ”آپ نے اس کو قابل شناخت جرم بنادیاہے۔

لہذا پولیس کسی کوبھی بناء وارنٹ کے جیل میں ڈال سکتی ہے‘ آپ کو شوہر کو جیل میں ڈالنے کی بڑی عجلت ہے۔ مگر حکومت بیوی کے لئے کوئی مالی تعاون نہیں دے رہی ہے۔

آپ اسی طرح کا قانون بہت سارے مسلم ممالک میں ہونے کا دعوی کررہے ہیں۔

لہذا آپ سراو رہاتھ قلم‘ سنگسار کرنے کا قانون بھی لائیں۔

ہندوستانی مسلمانوں کا دوسرے ممالک کے مسلمانوں سے تقابل نہ کریں“۔آزاد نے کہاکہ سپریم کورٹ نے ایسا کہا ہے بتاکر حکومت بل کو لانے میں کافی بے چین تھی۔انہوں نے کہاکہ ”سب سے پہلے سپریم کورٹ نے کسی مجرمانہ قانون کے متعلق کچھ نہیں کہا ہے۔ یہ سپریم کورٹ کا اقلیتی فیصلہ ہے۔

سال1947کے بعد سے کتنے اقلیتی فیصلے سامنے ائے او رکتنے فیصلوں پر نفاذ عمل میں آیا۔

سپریم کورٹ نے ہجومی تشدد پر بھی قانون بنانے کا کہا ہے کہ‘ ہجومی تشدد پر بھی قانون لائیں۔

منتخب انداز کاکام نہ کریں۔ پھر میں سپریم کورٹ کوٹ کی تجاویز اور ہدایت کو بھی تسلیم کروں گا“۔آزادنے کہاکہ سپریم کورٹ نے پہلے ہی تین طلاق کو ناقابل قبول قراردے دیا ہے۔

انہوں نے استفسار کیاکہ ”لہذا میں آپ کے ساتھ اب بدسلوکی کروں گا‘ اگر آپ کو مارنے کی دھمکی دوں گا‘ گولی مارنے کی دھمکی دوں گا‘ تو کیاآپ مجھے بڑی سزا دیں گے۔

کیااس کو آپ محض ایک دھمکی نہیں مانیں گے۔ تین طلاق کا قانون کچھ اس طرح کا ہے کہ تین طلاق کو سپریم کورٹ نے کالعدم قراردیا ہے تو آپ کیو ں سزا دے رہے ہیں“۔

آزادی نے کہاکہ ”یہ بل سیاسی طور پر فروغ دیا ہوا ہے۔

یہ(بل ایسا ہے) کہ اقلیتی ذاتی معاملات میں الجھے رہیں۔ شوہر بیوی کے خلاف وکیل کرے اور بیوی شوہر کے خلاف وکیل کرے۔ کیس لڑنے کے لئے وہ اپنی اراضیات فروخت کریں۔

بیوی او ربچے سڑک پر اجائیں اور شوہر جیل سے رہا ہونے کے بعد یاتو وہ خودکشی کرلے‘ ڈاکو بن جائے چوری کرنا شروع کردیایا پھر سڑک پر بھیک مانگنے کے لئے مجبور ہوجائے“۔

ان کی پارٹی کے ساتھ ڈگ وجئے سنگھ نے حکومت سے استفسار کیاکہ آیا مذکورہ حکومت مسلم کمیونٹی کو بل کے ذریعہ کس طرح بھروسہ میں لے گی۔

انہوں نے استفسار کیاکہ ”اس وقت بی جے پی کی مسلم خواتین کے ساتھ ہمدردی او رمحنت کہاں تھی جب گجرات میں 2002کے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران ایک حاملہ عورت کے کو چاقو گھونپا گیاتھا“