غیر مذہب قبول کرنا

   

سوال: کوئی غیرقوم کا شخص اسلام قبول کرتا ہے تو کیا مسلمان شخص غیرقوم کو قبول کرسکتا ہے ؟
جواب : اسلام دین حق ہے ، اسلام کے سوا کوئی مذہب حق نہیں اس لئے اگر کوئی غیر مسلم اسلام قبول کرتا ہے تو حق کی راہ کو پاتا ہے اور کوئی مسلمان غیرمذہب کو قبول کرتا ہے تو وہ جادۂ حق سے ہٹ کر باطل کے طریقہ کو قبول کیا وہ مرتد ہوگا اور دوزخ اس کا دائمی ٹھکانہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْـرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُ ۚ وَهُوَ فِى الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِيْنَ (سورہ آل عمران) جو شخص اسلام کے سواء کوئی دوسرا دین اختیار کرے تو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور ایسا شخص آخرت میں نقصان اُٹھانے والوں میں سے ہوگا۔ فقط واللہ أعلم
جلیل القدر صحابی حضرت عمار بن یاسر ؓ
عظیم الشان صحابی رسول ﷺحضرت عمار بن یاسرؓ اور انکے والدین حضرت یاسر ؓو سمیہؓ اولین ایمان لانے والوں میں سے تھے انکی والدہ اسلام کی سب سے پہلی شہیدہ ہیں جن کو ابوجہل نے نیزہ مار کے شہید کیا۔ حضرت عمارؓ کے مقام ایمان پر قرآن ان الفاظ سے گواہی دیتا ہے إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَ قَلْبُهٗ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمانِ۔ (سورۃ النحل) یعنی آپؓ کے قلب تک ایمان کا موجود ہونا قرآن سے ثابت اور اسطرح آپؓ کی شان ایمان کا منکر قرآن کا منکر ہے ۔ اسی لئے انکی عظمت ایمان پر نبی پاک نے صحیح حدیث میں ارشاد فرمایا کہ عمار مشاشہ (نرم ہڈی) تک ایمان سے بھرا ہوا ہے ۔ آپؓ نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مشرکین مکہ و کفار عرب کے خلاف تمام غزوات میں حصہ لیا۔ سیر اعلام النبلاء میں ہے آپؓ صاحب ہجرتین بھی ہیں یعنی پہلے حبشہ اور پھر مدینہ شریف ہجرت کرنے کا عظیم شرف حاصل ہے۔ ایک صحیح متواتر حدیث میں حضور اکرم ﷺ نے حضرت عمار بن یاسر کو باغیوں کے مقابلے میں شہادت و جنت کی بشارت دی ۔صحیح بخاری میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: ’’ہم مسجد کیلئے ایک ایک اینٹ اٹھا کر لا رہے تھے، اور عمار رضی اللہ عنہ دو ، دو اینٹیں اٹھا کر لاتے، تو نبی ﷺ حضرت عمارؓ کے قریب سے گزرے، تو آپؐ نے عمارؓ کے سر سے مٹی صاف کی اور فرمایا: ’’عمار افسوس! تجھے ایک باغی گروہ قتل کرے گا، عمار انکو جنت کی طرف بلا رہا ہوگا اور وہ عمار کو جہنم کی طرف بلاتے ہونگے‘‘۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ آپؓ مولا علی رضی اللہ عنہ کے ہمراہ جنگ صفین میں ۹؍ صفر ۳۷ہجری میں ’شامیوں‘ کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوئے ۔ نبی کریم ﷺ نے ایک اور حدیث میں واضح طور انہیں اور انکے والدین کو جنت کی خوشخبری سنائی: امام حاکم حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت لائے کہ: ’’رسول اللہ ﷺحضرت عمار بن یاسر اور انکے اہل خانہ کے پاس سے گزرے ، انہیں قبول اسلام پر شدید سزائیں دی جا رہی تھی، آپ ﷺنے فرمایا: آل عمار اور آل یاسر خوش ہو جاؤ، تمہارے لئے جنت کا وعدہ ہے‘‘۔ جامع ترمذی میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کیساتھ بیٹھے ہوئے تھے، تو آپ نے فرمایا: معلوم نہیں میں تمہارے درمیان کتنی دیر رہوں گا چنانچہ تم میرے بعد لوگوں کی اقتدا کرنا (آپ نے ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی جانب اشارہ فرمایا) اور عمار کے طریقے کو اپنانا، اور ابن مسعود جو احادیث بیان کریں انکی تصدیق کرنا۔ صاحب کتاب: ’’تحفۃ الأحوذی کہتے ہیں:حدیث میں مذکور عربی لفظ ’’ھدی‘‘ سے مراد سیرت اور طریقہ ہے، مطلب یہ ہے کہ: عمار کے طریقے کے مطابق چلو، اور اسی کا انداز اپناؤ‘‘یاد رہے حضرت عمار بن یاسرؓ کی شہادت مولا علی کرم اللہ وجہہ کی حمایت میں لڑتے ہوئے ہوئی۔ حکم رسول پاک کے مطابق اللہ تعالی ہمیں بھی عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نقش قدم پر اہلبیت کی مودت میں زندگی و موت عطاء فرمائے۔ آمین