فحش فلموں کا مشاہدہ اور طلاق کے واقعات میں اضافہ ۔ حیدرآباد میں کی گئی سروے رپورٹ کا خلاصہ۔

,

   

حیدرآباد۔شہر میں فحش فلموں کے تیزی کے ساتھ بڑھتا مشاہدہ ازدواجی زندگیوں میں دراڑ کی وجہہ بن رہا ہے۔ شہر میں حال کے دورا ن کی گئی ایک میڈیکل اسٹڈی سے یہ بات سامنے ائی ہے کہ فحش فلموں کی بڑھتی عدت اس نفسیاتی اثر کا اصل جڑ ہے۔

یہا ں تک مرکز ی حکومت نے ملک میں827فحش فلموں کی ویب سائیڈ پر روک لگاددی ہے ‘ باوجود اس کے 2017سے اس طرح کی فلموں کا مشاہدہ کرنے والوں کی تعداد میں75فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے۔

ایک سروے جو شہر کے ڈاکٹر س نے کیا ہے اور اس کو ان لائن کنسلٹیشن کے پلیٹ فارم ڈاک ان لائن پر شائع بھی کیا ہے ‘ کا ماننا ہے کہ فحش فلموں کی لت اس کے دیکھنے والے کی صحت پر مضر اثرات کی وجہہ بن رہا ہے‘ ایسی فلمیں دیکھنے والے78فیصد مرد اٹھارہ سے پچاس سال کی عمر کے ہیں۔ شہر کے فزیشن ڈاکٹر سید ابرار کریم نے ٹی او ائی سے بات کرتے ہوئے کہاکہ ’’ فحاشی کامشاہدہ کرنے والے کی جنسی توقعات بڑھ جاتی ہیں۔

جب یہ توقعات پورا نہیں ہوتے ‘ تو اس کا اثر نفسیاتی دباؤ کی شکل اختیار کرلیتا ہے‘‘۔

جنسی بے رہرروی کاشکار 5000مریضوں سے جب بات کی گئی تو ڈاکٹرس نے کہاکہ 3500مرد اور 1500عورتوں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ وہ مسلسل فحش فلمیں دیکھتے ہیں۔

عام طور پر اپنی خرابیوں کو دور کرنے کے لئے ایسے فحش فلموں کے شائقین ان لائن میڈیکل کنسلٹیشن حاصل کرتے ہیں‘ اس طرح کی خرابیاں ہی ان کے جسمانی کمزوری اور تناؤ کے واقعات کی وجہہ بنتے ہیں۔

اوریہ بھی سچ ہے کہ ہے رشتوں میں دوریاں او رطلاق کے واقعات بھی شہر میں کے اندر31فیصد زائد دیکھنے میں ائے ہیں۔ کریم نے کہاکہ’’ کسی بھی چیز کا زیادہ استعمال اس کے مضر اثرات چھوڑتا ہے۔ ان اثرات میں مردانگی سے محرومی اور حمل کھڑے ہونے میں دشواری جیسے واقعات پیش آنے پر وہ ہم سے رجو ع ہوتے ہیں۔

اسکول ٹیچر س کو بطور کونسلرس اس پر کام کرنا چاہئے تاکہ اس طرح کی فحش چیزوں سے بچوں کو محفوظ رکھا جاسکے۔ اس عمر سے ہی اس کی لت شروع ہوتی ہے‘‘۔

سائبرماہرین کا کہنا یہ ہے کہ ٹیلی کام سروسیس کی جانب سے اس طرح کی ویب سائیڈس پر روک لگادئے جانے کے بعد بھی آج کے دور کی نوجوان نسل بڑی آسانی کے ساتھ متبادل راستہ کی تلاش کر ہی لیتی ہے۔

اس کے علاوہ اس طرح ویب سائیڈس میں معمولی تبدیلیاں لاتے ہوئے حکومت کی امتناعات کوناکا م بنانے کا بھی عمل تیزی سے جاری ہے۔