فرقہ وارانہ منافرت کی مہم تیز

   

کیا کہیں کیونکر کہیں کیا ہوگیا
جو بھی قسمت کا لکھا تھا ہوگیا
ملک کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کا عمل مکمل ہوچکا ہے ۔ اب نئی حکومتوں کی تشکیل باقی ہے ۔ ان کے فوری بعد آئندہ چند ہی مہینوں میں ملک میں عام انتخابات ہونے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے اسمبلی انتخابات کے ساتھ ہی پارلیمانی انتخابات کی تیاریوں کا بھی آغاز کردیا گیا تھا ۔ بی جے پی ویسے بھی انتخابی موڈ ہی میں نظر آ رہی تھی اور دوسری جماعتوں نے بھی در پردہ اپنی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی اپنی جگہ تیاریاں واجبی ہیں تاہم کچھ گوشے ایسے ہیں جنہوں نے اچانک ہی فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کی مہم میں تیزی پیدا کردی ہے ۔ ریاستوں میں ہوئے اسمبلی انتخابات کی مہم میں بھی یہ کوشش کی گئی تھی ۔ حالانکہ یہ کوشش زیادہ شدت کے ساتھ نہیں کی گئی لیکن اس کا اثر ضرور اس انتخابی مہم میں دیکھنے کو ملا تھا ۔ اب جبکہ اسمبلی انتخابات مکمل ہوچکے ہیں اور ابھی کہیں نئی حکومت قائم بھی نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی ارکان اسمبلی نے حلف لیا ہے اس کے باوجود اچانک ہی ملک کے مختلف گوشوں میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کی مہم کو تیز اور شدید کردیا گیا ہے ۔ ابھی جو رکن اسمبلی منتخب ہوئے ہیں انہوں نے ایوان کی رکنیت کا حلف تک نہیں لیا ہے لیکن وہ سڑکوں پر اتر آئے ہیں اور وہ مذہبی منافرت کا کھیل شروع کرچکے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کے قائدین کی جانب سے پارلیمانی انتخابات کیلئے ابھی سے ماحول کو پراگندہ اور زہر آلود کرنے کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں اور اس کیلئے ملک کا ماحول بگاڑنے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ راجستھان میں ایک رکن اسمبلی جو ابھی منتخب ہوئے ہیں وہ سڑکوں پر نکل پڑے ہیں اور وہ مسلمانوں کی دوکانات اور ہوٹلوں کے لائسنس چیک کر رہے ہیں حالانکہ یہ ان کا کام نہیں ہے ۔ اس کیلئے متعلقہ حکام موجود ہیں۔ اس کے علاوہ لب سڑک ہوٹلوں اور ٹھیکہ بنڈیوں پر نان ویج غذاؤں کی فروخت کو بھی روکنے کی کوششیں انہوں نیش روع کردی ہیں۔ ان کے ساتھ مقامی پولیس اہلکار بھی پھیرے لگا رہے ہیں اور اقلیتی برادری میں خوف کا ماحول پیدا کرنے کا سلسلہ شرو ع کردیا گیا ہے جو انتہائی افسوسناک اور مذموم ہے ۔
راجستھان کے ہی جئے پور شہر میں راجپوت لیڈر سکھ دیو سنگھ گوگامیڈی کو ان کے ہی گھر میں کچھ حملہ آوروں نے گولی مار کر قتل کردیا ۔ راشٹریہ راجپوت کرنی سینا مسٹر گوگامیڈی کی قیادت میں چلائی جاتی تھی ۔ یہ تنظیم بھی خود شدت پسند کہی جاتی ہے ۔ اس تنظیم کا قیام اصل راجپوت کرنی سینا میں پھوٹ ڈالتے ہوئے عمل میں لایا گیا تھا ۔ اطلاعات یہ بھی گشت کر رہی ہیں کہ کسی گولڈی برار گینگ نے اس قتل کی ذمہ داری قبول کی ہے اور یہ دعوی کیا ہے کہ وہ دشمنوں کی مدد کر رہے تھے جس کے نتیجہ میں انہیں موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے ۔ یہ ایک کسی مجرمانہ ٹولی کی کارروائی سے زیادہ سوچی سمجھی سازش کا حصہ دکھائی دیتا ہے ۔ اس کے ذریعہ بھی سماج میں بے چینی اور نراج کی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ کچھ فرقہ پرست اداروں اور تنظیموں کی جانب سے بھی مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کاسلسلہ شروع کردیا گیا ہے ۔ انہیں دھمکیاں دی جا رہی ہیں ۔ انہیں خوف کا شکار کرنے کی کوششیں بھی تیز ہوگئی ہیں۔ یہ سب کچھ آئندہ پارلیمانی انتخابات کے پیش نظر ہو رہا ہے اور اس میں مزید شدت پیدا ہونے لگی ہے ۔ یہ صورتحال ملک کے مفاد میں نہیں کہی جاسکتی ۔ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے کئی دوسرے طریقے ہوسکتے ہیں۔ سماج میںنراج پھیلانے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کرنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ متعلقہ حکام کو اور خود بی جے پی کی اعلی قیادت کو اس معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے حالات بہتر بنانے چاہئیں۔
جو فرقہ پرست عناصر اس طرح کا ماحول پیدا کر رہے ہیں ان کی روایت رہی ہے کہ وہ سماج کی پرواہ کئے بغیر اپنے منصوبوں پر عمل کرتے ہیں۔ وہ کسی کو بھی نشانہ بنانے یا پھر کسی کے بھی خلاف زہر اگلنے سے باز نہیںآتے اور مسلسل ماحول کو بگاڑنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ ملک کی سپریم کورٹ نے بھی ایسے واقعات کے خلاف ریمارکس کئے ہیں اور زہر افشانی پر پولیس کو از خود نوٹ لیتے ہوئے کارروائی کرنے کو بھی کہا ہے ۔ نفاذ قانون کے اداروں اور ایجنسیوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ دستور اور قانون کے مطابق حرکت میںآئیں اور ایسے عناصر پر لگام کسنے سے گریز نہ کریں۔ یہی ان کی اصل ذمہ داری اور فریضہ ہے ۔