فرقہ پرستوں کا تازہ ترین نشانہ بدیوں کی مسجد

,

   

درخواست کے مطابق مذکورہ مسجد کو مسلم حکمران شمس الدین التمش نے قدیم مند ر نیل کنٹ مہادیو کو منہدم کرکے تعمیر کی تھی۔
بدایوں (یوپی)۔ واراناسی اور ماتھرا کے بعد اب بدیوں میں مسجد تنازعہ کا شکار بن گئی ہے جس کے متعلق دائیں بازو کارکنوں کا دعوی ہے کہ وہ نیل کنٹ مہادیو مندر تھی۔

کل ہند ہندو مہاسبھا کا ریاستی کنونیر کا دعوی کرنے والے ایک شخص مکیش پٹیل کی دائر کردہ درخواست پر بدایوں کی ایک مقامی عدالت نے فریقین کو نوٹس جاری کی ہے۔

درخواست گذار دعوی کررہا ہے ہ بدایوں میں جامعہ مسجد کی عمارت کسی وقت میں ہندو بادشاہ مہی پال کا قلعہ ہو اکرتی تھی۔درخواست کے مطابق مذکورہ مسجد کو مسلم حکمران شمس الدین التمش نے قدیم مند ر نیل کنٹ مہادیو کو منہدم کرکے تعمیر کی تھی۔

تاریخ میں درج واقعات بتاتے ہیں کہ بدایوں کی مسجد التمش نے اپنی بیٹی رضیہ سلطان کی سالگرہ پر تعمیر کی تھی۔ اس مسجد کانام عظیم الشان جامعہ مسجد بھی ہے۔

یہ 800سال قدیم ہندوستان میں سب سے قدیم اور سب سے بڑی مسجد مانی جاتی ہے۔ اس مسجد کی تعمیر کی شروعات1210اے ڈی میں ہوئی اور تکمیل 1223اے ڈی میں عمل میں ائی ہے۔

سینئر ڈیویثرنل سیول جج وجئے کمار گپتا‘ جنھوں نے درخواست کوقبول کیاہے جامعہ مسجد ویترانیاسمیتی‘ سنی وقف بورڈ‘ ارکیالوجی ڈپارٹمنٹ برائے مرکز اور یوپی حکومت‘ بدایو ضلع مجسٹریٹ اور یوپی حکومت کے پرنسپل سکریٹری کو نوٹس جاری کیااور استفسار کیاکہ ستمبر 15سے قبل تک اس خصوص میں اپنی جوابات داخل کریں۔

اس طرح کے معاملات میں سنوائی سے روک پر مشتمل پیلس آف ورشپ ایکٹ 1991کے باوجود عدالت نے درخواست کو قبول کیاہے۔

اس 1991ایکٹ کے مطابق15اگست1947سے قبل کے مذہبی مقام کے موقف کو نہ تو بدلا جاسکتا ہے او رنہ ہی اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جاسکتی ہے۔ سوائے بابری مسجد معاملے کے کیونکہ یہ کیس برطانوی دنوں سے عدالت میں چل رہا تھا۔