’فلسطینی ریاست کا قیام ہماری اور آپ کی زندگی میں ہی ہوگا‘

   

ظفر آغا
یہ ذکر ہے سنہ 1983 کا۔ اندرا گاندھی سنہ 1980 میں واپس اقتدار میں آ چکی تھیں۔ ادھر لبنان میں بسے فلسطینیوں پر اسرائیلی حکومت چند ماہ قبل قہر ڈھا چکی تھی۔ فلسطینیوں کے قائد یاسر عرفات نے اسرائیل کے آگے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کر دیا تھا۔ ہزاروں فلسطینی لبنان کی جنگ میں جان گنوا چکے تھے۔ ساری دنیا میں فلسطینیوں کے لیے ہمدردی کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ اس پس منظر میں ہندوستان میں غیر جانبدار ممالک کی عالمی کانفرنس دہلی میں منعقد ہونے والی تھی۔ اندرا گاندھی ان تمام ممالک کے سربراہوں کو ذاتی طور پر مدعو کر رہی تھیں جو اس تنظیم کے ممبر تھے۔ یاسر عرفات کی قیادت میں الفتح (پی ایل او) بھی اس تنظیم میں شامل ہو چکی تھی۔ دہلی کے سیاسی اور سفارتی حلقوں میں اس کانفرنس کے چرچے تھے۔ اخباروں میں کون لیڈر 1983 کی بین الاقوامی غیر جانبدار ممالک کانفرنس میں شرکت کر رہا ہے اس کے چرچے تھے۔ ایکدم ہماری وزارت خارجہ نے اعلان کیا کہ یاسر عرفات کانفرنس میں شرکت کے لیے دہلی تشریف لا رہے ہیں۔ اس خبر کے اعلان کے ساتھ ہی صحافتی حلقوں میں ایک دوڑ سی شروع ہو گئی۔ ہر صحافی یاسر عرفات کا انٹرویو لینے کو کوشاں تھا۔
خیر، وہ دن آیا کہ جس روز وگیان بھون میں کانفرنس شروع ہوئی۔ ہر آنکھ اس وقت کے ہیرو یاسر عرفات کو ڈھونڈ رہی تھی۔ تیسری یا چوتھی صف مین عرفات اپنے ٹریڈ مارک عربی کفیہ کے ساتھ موجود تھے۔ پہلی صف میں اندرا گاندھی کے ساتھ کیوبا کے انقلابی لیڈر فیڈل کاسترو بیٹھے تھے۔ وہ پچھلی بین الاقوامی کانفرنس کے صدر تھے۔ کاسترو کو اب یہ صدارت اندرا کو سونپی تھی۔ کانفرنس شروع ہوئی۔ ان کی تقریر کے خاتمے کے بعد کاسترو نے اندرا گاندھی کو عہدہ صدارت پیش کرتے کرتے اندرا کو گلے لگا لیا۔ ڈائس پر بیٹھے عالمی لیڈران کے ساتھ ساتھ تمام ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ اس طرح کانفرنس تین دن تک چلی۔ ہر روز صحافی یاسر عرفات کی پریس کانفرنس کا انتظار کرتے۔ آخر وہ گھڑی بھی آ گئی۔ ہال دنیا بھر کے صحافیوں سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔ ہم بھی اس مجمع میں شریک تھے۔ عرفات تشریف لائے اور پریس کانفرنس شروع ہوئی۔ ہمارے اخبار کی جانب سے جان دیال صاحب کو سوال کرنے کا موقع ملا۔ انھوں نے عرفات کو مخاطب کرتے ہوئے سوال کیا ’’چیئرمین آخر فلسطین ریاست کا کبھی قیام بھی ہوگا!‘‘ عرفات نے پہلے غصے سے جان دیال کو گھورا۔ پھر ذرا نرم لہجے میں جواب دیا ’’ہاں، اور یہ ریاست ہماری اور آپ کی زندگی میں ہی قائم ہو جائے گی۔‘‘
جان دیال کے اس سوال کو پوچھے کوئی پچاس برس گزر چکے لیکن فی الحال اسرائیل اور حماس کی جاری جنگ کے دوران ایک بار پھر جان کا وہی سوال ساری دنیا میں ایک صدائے بازگشت کی طرح گونج رہا ہے۔ کیا واقعی کبھی فلسطینیوں کو آزاد ریاست میں رہنے کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوگا! اس سوال کے ساتھ ساتھ پس منظر میں یاسر عرفات کا جواب ’ہاں ضرور، فلسطینی ریاست ہماری اور آپ کی زندگی میں قائم ہوگی‘ بھی گونج رہا ہے۔ لیکن دقت یہ ہے کہ حماس-اسرائیل جنگ کے بعد یاسر عرفات کا جواب بے معنی لگتا ہے، کیونکہ 75 سال بعد بھی غزہ پٹی میں فلسطینیوں کا خون ناحق بہہ رہا ہے۔ وہ چھوٹی سی پٹی جس کو غزہ کہتے ہیں، اسرائیل وہاں سے بھی فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کا اعلان کر چکا ہے۔ آب و دانہ کے محتاج غزہ پٹی کے فلسطینی وہاں مارے جا رہے ہیں اور دنیا بھر میں فلسطینیوں کے لیے ہمدردی کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔ تو پھر یہ پوچھنے کا دل کرتا ہے کہ کیا کبھی فلسطینی آزادی کا سانس لے سکیں گے!
حماس اور اسرائیل کی جنگ نے دو باتیں طے کر دی ہیں۔ پہلی، فلسطینی آزادی لے کر رہیں گے۔ دوسری یہ کہ وہ تمام ممالک جو فلسطین کے نام پر مگرمچھ کے آنسو بہانے میں وہ فلسطین کا سودا نہیں کر سکتے ہیں۔ وہ مسلم ممالک جو جلد ہی اسرائیل کو تسلیم کرنے والے تھے، وہ اب فلسطینیوں کی حمایت میں کھڑے نظر آ رہے ہیں۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ فلسطینیوں کی قربانی کا جذبہ ویسے ہی جوش میں ہے جیسے کہ 75 سال قبل اسرائیل کے خلاف جوش میں تھا۔ بھلا ایسی قوم کی آزادی کو کب تک روکا جا سکتا ہے۔ یاسر عرفات سے بڑھ کر فلسطینیوں کا عزم کون سمجھ سکتا تھا۔ تبھی تو انھوں نے کہا تھا کہ فلسطینی ریاست کا قیام ہماری اور آپ کی زندگی میں ہی ہوگا۔