فیول پر اکسائز ڈیوٹی میںاضافہ

   

جینے کا حوصلہ ہے نہ مرنے کا اختیار
بیٹھا ہوں اک نگاہ سے پیماں کئے ہوئے
فیول پر اکسائز ڈیوٹی میںاضافہ
مرکز کی نریندر مودی حکومت نے پٹرول اور ڈیزل پر اکسائز ڈیوٹی میں بھاری اضافہ کردیا ہے ۔ پٹرول پر فی لیٹر 10 روپئے اور ڈیزل پر فی لیٹر 13 روپئے کا اضافہ کردیا گیا ہے ۔ حالانکہ اس طرح سے پٹرول اور ڈیزل کی ریٹیل فروخت پر کوئی خاص فرق نہیںپڑے گا لیکن اس کے نتیجہ میں عوام کو جو راحت مل سکتی تھی اس پر مودی حکومت نے قدغن لگاتے ہوئے اپنے خزانے بھرنے کے عمل کا دوبارہ آغاز کردیا ہے ۔ مودی حکومت کی پہلی معیاد کے بعد ہی سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتو ں میں کمی کے کئی مواقع آئے تھے ۔ تیل کی قیمتیں نصف تک کم ہوگئی تھیں اور اب بھی جو قیمتیں ہیں وہ بھی انتہائی معمولی ہوگئی ہیں ۔ کہا جا رہا ہے کہ عالمی سطح پر کورونا وائرس لاک ڈاون کے نتیجہ میں تیل کی طلب میں بہت زیادہ حد تک کمی آئی ہے اور تیل کے ذخائر لبریز ہونے لگے ہیں۔ ایسے میں قیمتوں میں گراوٹ آتی جا رہی ہے ۔ ایک موقع پر تیل کی قیمتیں 18 ڈالر فی بیاریل تک ہوگئی تھیں۔ اب بھی یہ قیمت کم ہی ہے اور فی بیاریل 28 ڈالرس کے آس پاس بتائی جا رہی ہے ۔ اس صورتحال میں ہندوستان کے صارفین کو اس کا راست فائدہ ہونا چاہئے تھا ۔ ملک میں تیل کی قیمتوں میں عالمی منڈی سے جوڑ دیا گیا تھا اورا یک موقع پر قیمتیں زیادہ تھیں حکومت نے ملک کے صارفین کو راست مہنگائی کی مار کھانے کیلئے چھوڑ دیا تھا اور کہا یہ جارہا تھا کہ چونکہ عالمی منڈی میں قیمتیں بڑھ رہی ہیںاس لئے وہ کچھ نہیں کرسکتی اور ملک کی یومیہ اساس پر قیمتوں پر نظرثانی ہو رہی تھی لیکن جیسے ہی عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہونے لگیں حکومت نے اپنے خزانے بھر نے کیلئے طریقے تلاش کرلئے ۔ اکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کرتے ہوئے حکومت اپنے خزانے بھرنے میں مصروف ہوگئی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ حکومت کے دوست کچھ مٹھی بھر کارپوریٹس کے جو ہزاروں کروڑ روپئے کے قرضہ جات کو معاف کردیا گیا ہے ان کی بھرپائی عوام کی جیبیں کاٹ کر کرنے کا نریندرمودی حکومت نے تہئیہ کرلیا ہے ۔ کسی نہ کسی بہانے سے عوام پر بوجھ عائد کرنا اور جہاں کہیں راحت پہونچائی جاسکتی ہے اپنے خزانے بھرنا حکومت کا معمول بن گیا ہے ۔
ایک ایسے وقت میں جبکہ ملک میں کورونا وائرس کے لاک ڈاون کے نتیجہ میں 12 کروڑ ملازمتیں ختم ہوگئی ہیں اور لوگ بیروزگار ہوگئے ہیں ‘ جن کی ملازمتیں بچ گئی ہیں ان کی تنخواہوں میں کٹوتی کی جا رہی ہے ۔ خود حکومت اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی پر مجبور ہوگئی ہے ایسے میں اگر عالمی منڈی میں تیل کے سستا ہونے کا فائدہ اگر راست طور پر عوام کو منتقل کیا جاتا تو انتہائی معمولی راحت ضرور عوام کو محسوس ہوتی لیکن حکومت نے ایسا نہیں کیا ۔ حکومت نے لاک ڈاون کی وجہ سے ابتر معاشی صورتحال میں بھی نیرو مودی ‘ میہول چوکسی اور وجئے مالیا جیسے مفرور تاجروں کے 68 ہزار کروڑ روپئے سے زیادہ کے قرض بیک جنبش قلم معاف کردئے لیکن عوام کو معمولی 10 فی لیٹر کی راحت پہونچانے سے بھی انکار کردیا ہے ۔ یہ حکومت کی عوام کے تئیں بے حسی کی کیفیت ہے ۔ لاک ڈاون کے اعلان کو دیڑھ ماہ سے زیادہ کا وقت ہوگیا ہے اور جو راحت پہونچانے کا اعلان کیا گیا تھا وہ بھی انتہائی معمولی تھا ۔ ماہانہ 500 روپئے کسی کے اکاونٹ میں منتقل کرکے حکومت بری الذمہ نہیں ہوسکتی ۔ اس کے علاوہ ریاستی حکومتوں کی جانب سے بھی جو امداد کے اعلانات کئے گئے تھے وہ ناکافی ہی کہے جاسکتے ہیں۔ اس صورت میں جب عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی آئی تھی اور اگر اس کا فائدہ عوام کو منتقل کیا جاتا تو عوام میں قدرے راحت محسوس ہوسکتی تھی ۔ اس کے علاوہ فیول کی قیمتوں میں کمی سے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بھی کمی لائی جاسکتی تھی ۔
حکومت معاشی پریشانیوں اور بحران کا بہانہ پیش کرتے ہوئے اپنے اقدام کا جواز پیش کرسکتی ہے لیکن حکومت بہت اچھی طرح واقف ہے کہ عوام بھی لاک ڈاون کی وجہ سے کس حال کو پہونچ چکے ہیں۔ عوام کے پاس کھانے کیلئے بھی پیسے بچنا مشکل ہوگیا ہے ۔ کروڑ ہا افراد ایک وقت کھانے تک محدود ہونے لگے ہیں کیونکہ ان کی نوکریاں چلی گئی ہیں۔ نہ صرف لاک ڈاون بلکہ آنے والا وقت بھی ان کیلئے مشکل ترین ہوسکتا ہے ۔ ایسے میں حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ اپنے خزانے بھر نے اور اپنے دوستوں کے قرض معاف کرنے کی بجائے عوام کو راحت پہونچانے کے حق میں کوئی فیصلہ کرتی ۔ تاہم حکومت نے ایسا نہیں کیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ عوامی مسائل کے تئیں مودی حکومت بے حس ہوگئی ہے ۔