قرآن اور حسینؓ و پیشگوئیاں

   

حافظ محمد عقوب علی خان
امام الانبیاء رسولِ صادق و امینﷺ نے امت کو مخاطب کرکے فرمایا ’’ ہم تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ رہے ہیں ۔ ایک تو قرآن ہے اور دوسرے میری اہل بیت ۔ اگر تم ان دونوں کا دامن تھام کر رکھوگے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے ۔ قرآن اور میری اہل بیت ہمیشہ ساتھ رہیں گے اور ان کا راستہ کبھی الگ الگ نہیں ہوگا حتی کہ یہ دونوں اکھٹے حوضِ کوثر پر ہم سے ملاقات کریں گے ‘‘ ۔سرکاردوعالمﷺ کے اس فرمانِ عالیشان میں ایک لطیف نکتہ کی نشاندہی ہوتی ہے ۔ ایک خاص الخاص راز سے پردہ اٹھتا ہے ۔ قیامت کے دن امام الانبیاءﷺ کی پورے میدانِ محشر میں جلوہ گری ہوگی۔ مقام محمود پر آپؐ تشریف فرما ہوں گے ۔ جنت کے دروازوں کو آپؐ کھولیں گے ۔ عرشِ الہٰی کے سامنے آپؐ سجدہ ریز ہوں گے ۔ پل صراط پر آپؐ اپنی امت کو گذار رہے ہوں گے ۔ لواء لحمد ، خدا کی تعریف کا پرچم آپؐ کے ہاتھوں میں ہوگا ۔ انبیاء علیہم السلام کی قیادت آپؐ فرما رہے ہوں گے ۔ خدا تعالیٰ کے حضور میں امت کی سفارش و شفاعت آپؐ فرما رہے ہوں گے ۔ لوگوں کے اعمال وزن کرنے کے لئے میزان پر آپؐ ہوںگے ۔ امت کے دوزخیوں کو آپؐ جہنم سے نکال رہے ہوں گے ۔ امت کا جہنم میں داخلہ روکنے کے لئے مالک فرشتہ دوزخ سے محوِ گفتگو آپؐ ہوں گے ۔(مشکوٰۃ )
اہل بیت کو سب سے پہلے حوضِ کوثر پر آنا تھا اور قرآن کو اہل بیت کے ساتھ آنا تھا ۔ اس لئے کہ رسولِ صادق کا فرمان ہے کہ میری اہل بیت اور قرآن ہمیشہ ساتھ رہیں گے اور پھر اکٹھے ہی ہوض کوثر پر ملاقات کریں گے ۔
کربلائے معلی میں دو قرآن دو ش بدوش تھے ۔ ایک قرآن خاموش تھا ایک قرآن ناطق تھا ۔ حسین بھی قرآن تھے اور قرآن بھی قرآن ۔ ایک قرآن نے امام الانبیاءﷺ پر نزول فرمایا اور ایک قرآن دوشِ رسول کا راکب بنا ۔ قُلْ لَّآ اَسْاَلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِى الْقُرْبٰى (الشوری آیت ۳۲)
حسین نے تیروں تلواروں کی بارش میں یہ خطبہ ارشاد فرمایا کہ جان جاتی ہے تو جائے قرآن کے قوانین کا احترام کرو ۔ قرآن نے اعلان کیا کہ حسین رضی اللہ عنہ رسولِ ہاشمی کے نواسے ہی نہیں بیٹے بھی ہیں ۔ أَبْنَآءَنَا وَأَبْنَآءَكُمْ (آیت مباہلہ) حسینؓ نے خطبہ دیا قرآن کسی مخلوق کا کلام نہیں یہ خالق کا کلام ہے ، خدا کا قانون ہے اور قانونِ خداوندی کو تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔
قرآن نے کہا ! حسینؓ زندہ ہیں ۔ حسینؓ ابدی حیات کے مالک ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں رزق دیئے جاتے ہیں ۔ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّـذِيْنَ قُتِلُوْا فِىْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ اَمْوَاتًا ۚ بَلْ اَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّـهِـمْ يُـرْزَقُوْنَ (آل عمران ۱۶۹) اور وہ لوگ جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے ان کو ہرگز مردہ خیال نہ کرنا بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار سے روزی پاتے ہیں ۔
امام الانبیاء فرماتے ہیں کہ تمام انبیاء کی نسل ان کے بیٹوں سے شروع ہوئی اور میری نسل میری بیٹی سے شروع ہوئی ۔پھر فرمایا تمام نبیوں کا سلسلہ نسل ان کی اپنی پشت سے چلا لیکن میری اولاد کا ظہور پشت علیؓ سے ہوگا ۔
ایک جگہ فرمایا قیامت کے دن تمام دنیا کا سلسلہ نسب منقطع ہوجائے گا لیکن میرا سلسلہ نسب و سبب منقطع نہیں ہوگا ۔
امام الانبیاء اگر اہل بیت کرام میں سے ان چاروں کی تخصیص فرماتے ہیں تو اس تخصیص کی وجہ بھی بہت بڑی ہے ۔ نسلِ مصطفی کا جاری ہونا کوئی معمولی بات نہیں ۔ اس نسل پاک کا جس نے تقریر عالم کو بدلنا ہے جو سیدالانبیاء کے لئے وجہ افتخار ہے اور جو کفار و مشرکین کے طعنوں کا جواب ہے۔ حضوراکرمﷺ اپنی اس نسل پاک کے متعلق حجتہ الوداع کے موقع پر اپنی ناقہ مبارک قصوہ پر سوار ہوکر خطبہ ارشاد فرماتے ہیں : ’’ اے لوگو ! میں تم میں دو چیزیں چھوڑ رہا ہوں ۔ اگر تم انہیں پکڑے رہوگے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے ۔ ایک تو اللہ کی کتاب ہے اور دوسری عترت و اہل بیت ‘‘ ۔ پھر فرمایا پس اللہ کی کتاب کو پکڑو اور مضبوطی سے تھام رکھو ، میں تمہیں اپنی اہل بیت کے بارے میں اللہ سے ڈراتا ہوں ، تمہیں اپنی اہلبیت کے بارے میں اللہ سے ڈراتا ہوں ۔ ایک اور مقام پر امام الانبیاءﷺ کو اہلبیت سے وابستگی رکھنے کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں ۔ بیشک ستارے اہل زمین کے لئے امان ہیں جو غرق ہونے سے بچاتے ہیں اور میری اہل بیت امان بنے میری امت کے لئے جو دور کرتی ہے اختلافوں کو ۔ پس جو قبیلہ ان سے مخالفت کرے گا وہ ہوجائے گا حزب شیطان ۔ سرکاردوعالمﷺ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے ساتھ اور اپنی اہل بیت کے ساتھ محبت رکھنے کی وجوہات بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس لئے حجت کرو کہ وہ تمہیں نعمتیں عطا فرماتا ہے اور میرے ساتھ محبت کرو اللہ تعالیٰ کی وجہ سے اور میری اہل بیت سے محبت کرو میری وجہ سے ۔ ایک اور مقام پر سیدالانبیاءﷺ ارشاد فرماتے ہیں ’’ ہمارے اہل بیت سے مؤدت و محبت کرنے کا حکم اللہ عزوجل نے فرمایا ہے پس جو ہماری اہل بیت سے مؤدت رکھے گا وہ ہماری شفاعت سے جنت میں داخل ہوگا اور قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھوں میں میری جان ہے تمہارا کوئی عمل تمہیں نفع نہیں دے گا جب تک ہمارا حق نہیں پہچانوگے ۔
حضور فرماتے ہیں ہم عنقریب اپنی اہل بیت کے متعلق تمہاری آزمائش کریں گے کہ تم ان کے ساتھ میرے بعد کیا سلوک کرتے ہو اور یہ بھی فرمایا کہ جو میری اہل بیت کو ستائے گا اس پر اللہ تعالیٰ کا شدید غضب نازل ہوگا ۔ امام الانبیاءﷺ نے فرمایا جو شخص بھی ۔۔۔۔۔ تک فوت ہی نہیں ہوگا جب تک وہ توبہ نہ کرلے ۔ اور فرمایا کہ جو محبت اہل بیت میں فوت ہوگا وہ مؤمن فوت ہوگا ۔
یہی نہیں بلکہ سرکاردوعالمﷺ محبت اہل بیت میں فوت ہونے والے کے لئے ارشاد فرماتے ہیں کہ وہ مکمل ایمان کے ساتھ فوت ہوگا اور اس کی موت شہید کی موت ہوگی اور پھر فرمایا کہ میری اہل بیت کی محبت میں فوت ہونے والے کو عزرائیل علیہ السلام جنت کی بشارت دیتے ہیں اور جب وہ قبر میں جاتا ہے تو اسی بشارت کے ساتھ منکر اور نکیر اس کا استقبال کرتے ہیں ۔
اس کے بعد امام الانبیاءﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ جو شخص محمد اور آلِ محمد کی محبت سینے میں لے کر فوت ہوگا وہ جنت میں اس طرح جائے گا جس طرح عروسہ نکھر کر اپنے شوہر کے گھر جاتی ہے اور اس کی قبر میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور اس کی قبر کو ملائکہ رحمت کی زیارت گاہ بنادیا جاتا ہے ۔ امام الانبیاء تاجدار مدینہ دشمنانِ اہل بیت کے لئے فرماتے ہیں کہ انہیں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس کردیا جائے گا اور ان کی آنکھوں کے درمیان تحریر کردیا جائے گا کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس کردیئے گئے ہیں اور وہ کافر ہوکر مریں گے ۔ انہیں جنت کی خوشبو سے محروم کردیا جایء گا ۔ محمد عربی کا امتی کہلانا ہے تو اپنے پیغمبر کاحق پہچانو ۔ ان کی اہل بیت کا احترام کرنا سیکھو ۔ ان کی عزت کرو ۔ ان سے عقیدت و محبت رکھو ۔ اللہ تعالیٰ تم سے ان کی مودت طلب کرتا ہے ۔ عناد اور بغض نہیں مانگتا ۔ ان کی شان بیان کرنے سے پہلوتہی نہ کرو ۔
نانا ہوں سیدالانبیاء ، نانی ہوں خدیجۃ الکبریٰ ، باپ ہوں سیدالانبیاء ، نانی ہوں خدیجۃ الکبریٰ ، باپ ہوں سیدالالیاء ، ماں ہوں سیدۃ النساء تو بیٹے پیدا ہوتے ہیں سیدالشہداء ۔ نبی کا نور ، علی کا خون اور فاطمہ کا دودھ ایک جگہ مل جائے تو بنتے ہیں حسن اور حسین ۔ آیت کریمہ مرج البحرین کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ان دونوں دریاؤں سے مراد علی اور فاطمہ ہیں اور ان دریاؤں سے جو موتی مونگا پیدا ہوئے ہیں وہ حسن و حسین ہیں ۔ دو دریا علی و فاطمہ ہیں ۔ برزخ حضور اور موتی حسن و حسین ہیں ۔ کون خاتونِ قیامت ! جس کا لقب زہرا اور زاہرا ہے ۔ زہرا کلی کو بھی کہتے ہیں اور ضیاء کو بھی ۔ رسولِ معظم فرماتے تھے میری بیٹی سے جنت کی خوشبو آتی ہے ۔ آپ جنت کی اس کلی کو سونگھا کرتے تھے ۔
کون خاتونِ قیامت
۱۔ جس کو سواری میدانِ محشر میں آئے گی تو منادی کردی جائے گی کہ اے اہل محشر اپنی نگاہیں نیچی کرلو محمد کی بیٹی کی سواری گذرنے والی ہے ۔
کون خاتونِ قیامت ! جس کی سواری ستر ہزار حوروں کے جھرمٹ میں پلصراط سے ایسے گذر جائے گی جیسے بجلی کوند جاتی ہے (خصائص کبریٰ ص ۵۴)
کون خاتونِ قیامت ! جو اپنے باپﷺ کے بعد سب سے پہلے جنت میں تشریف لے جائیں گی (خصائص کبریٰ ۲؍۵۲۲)
کون خاتون قیامت ! جو جنت کی تمام عورتوں کی سردار ہیں ۔ فاطمۃ سیدۃ النساء اھل الجنۃ (خصائص کبریٰ ۲؍۵۲۲)
کون خاتونِ قیامت ! جو جنت الفردوس میں مع اپنے شوہر اور اولاد کے اسی مقام اور محل میں قیام فرمائیں گی جہاں ان کے اباجان ہوگے (صواعق محرقہ نزہۃ المجالس ۲؍۶۲۲)
کون خاتون قیامت ! جسے امام الانبیاءﷺ نے انسانی حور فرمایا ہے (اشعۃ اللمعات ۴؍۴۸۶)
کون خاتونِ قیامت ! جن کے پردے کا احترام کرتے ہوئے ملک الموت ان کی روح قبص کرنے پر راضی نہ ہوا اور پھر خود اللہ تعالیٰ نے اپنے دستِ قدرت سے ان کی روح قبص فرمائی (صواعق محرقہ ۸۸۱ نورالابصار ۵۴)
لم نزل علیھا ملک الموت لم ترضی بقیفۃ فقبض اللہ روحھا (روح البیان ۵؍۷۲۲) محرم کی نوویں تاریخ یہ محرم الحرام کی نویں تاریخ کی بات ہے ۔ شمر نے ابنِ سعد سے کہا جلدی نماز عصر ادا کرلو اور پھر بھرپور حملہ کردو۔
اور خود ذبح ہوکر دنیا پر واضح کردینا تھا کہ
قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
پیشگوئی نمبر ا : حضرت ام الفضل بنتِ حارث فرماتے ہیں کہ میں حضورﷺ کی خدمت میں حسین کو لیکر گئی اور آپ کی گود میں دے دیا تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہﷺ کی آنکھوں سے لگاتار آنسو بہہ رہے (اسی حالت میں) آپ نے مجھے فرمایا کہ مجھے جبرئیل نے خبر دی ہے کہ میرے اس بیٹے کو میری امت شہید کرے گی ۔ پھر جبرئیل نے مجھے اس کی شہادت گاہ کی سرخ مٹی دی ۔
پیشگوئی ۲ : حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بارش برسانے والے فرشتے نے حضورﷺ کی خدمت میں حاضری دینے کے لئے رب تعالیٰ سے اجازت طلب کی ۔ اجازت ملنے پر جب بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے تو اس وقت حضرت حسین نبیﷺ کے مبارک کندھوں پر جھوم جھوم کر کھیل رہے تھے ۔ اس فرشتہ نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں عرض کی ! کیا آپ حسین سے پیار کرتے ہیں ۔ تو حضورﷺ نے فرمایا ہاں ! اس نے کہا آپ کی امت اس کو شہید کردے گی اور اگر آپ چاہیں تو میں ان کی شہادت گاہ آپ کو دکھا دوں ۔ اس نے اپنا ہاتھ زمین پر مارا اور حضورﷺ کو سرخ مٹی دکھائی ۔ اس مٹی کو حضرت اُمِ سلمہ نے کپڑے میں باندھ لیا انس کہتے ہیں کہ ہم سنا کرتے تھے کہ حسین کربلا میں شہید ہوں گے ۔
پیشگوئی ۳ : حضرت اُمِ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میرے گھر میں حسن اور حسین کھیل رہے تھے تو جبرئیل علیہ السلام نے آکر حضور کی خدمت میں عرض کیا ۔ آپ کے بعد آپ کے اس بیٹے کو آپ کی امت شہید کردے گی اور جبرئیل کا اشارہ حسین کی طرف تھا اور آپ کی خدمت میں تھوڑی سی مٹی پیش کی ۔ آپ نے اس مٹی کو سونگھ کر فرمایا ۔ اس میں رنج و بلا کی بو آتی ہے اور مجھے بلا کر فرمایا اے اُمِ سلمہ جب یہ مٹی خون بن جائے تو سمجھ لینا کہ میرا بیٹا شہید ہوگیا پھر میں نے اس مٹی کو شیش میں بند کر رکھا ۔
پیشگوئی ۴ : انس بن حارث فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ یہ میرا بیٹا (حسین) اس زمین پر شہید کیا جائے گا ، جس کا نام کربلا ہے ۔ تم لوگوں میں سے جو شخص وہاں موجود ہو اس کی مدد کرے اور پھر انس بن حارث امام حسین کے ساتھ ہی کربلا میں گئے اور آپ کے ساتھ ہی شہید ہوگئے ۔
پیشگوئی ۵ : حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ ایک روز کروٹ بدل کر سو رہے تھے اور پھر جب بیدار ہوئے تو آپ غمگین و غمزدہ تھے ۔ آپ کے مبارک ہاتھوں میں سرخ مٹی تھی جسے آپ الٹتے پلٹتے تھے ۔ میں نے عرض کیا ۔ یا رسول اللہ ! یہ مٹی کیسی ہے تو آپ نے فرمایا ہمیں جبرئیل نے خبر دی ہے کہ میرا حسین سرزمین عراق میں شہید کردیا جائے گا اور یہ وہیں کی مٹی ہے ۔
پیشگوئی ۶ ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے جبرئیل علیہ السلام نے خبر دی ہے کہ میرے بعد میرا بیٹا حسین ارضِ طَف پر شہید کردیا جائے گا اور میرے پاس وہاں کی یہ مٹی بھی جبرئیل میرے پاس لائے ہیں اور مجھے کہا کہ یہ ان کے ۔۔۔۔۔ کی جگہ ہے ۔
پیشگوئی ۷ : اور روایت بیان کی امام احمد نے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تحقیق ہمارے گھر میں ایک فرشتہ آیا جو اس سے پہلے میرے پاس کبھی نہیں آیا تھا ۔ گو اس نے مجھے کہا کہ آپ کا یہ بیٹا حسین شہید ہوگا اور اگر آپ پسند فرمائیں تو آپ کو ان کی شہادت گاہ کی مٹیدکھاؤں اور پھر تھوڑی سی سرخ مٹی نکالی ۔
پیشگوئی ۸ : حضرت محمد بن عمر بن حسن روایت بیان کرتے ہیں کہ ہم امام حسین کے ساتھ کربلا کی نہر پر تھے ۔ پھر دیکھا امام حسین نے شمر کی طرف اور فرمایا کہ سچے ہیں اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا گویا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک ابلق (ڈبا) کتا میری اہل بیت کا خون پی رہا ہے اور تھا شمر لعین برص زدہ کوڑھی ۔
پیشگوئی ۹ : حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے کہ آپ جب جنگ صفین کے موقع پر کربلا سے گذرے تو ایک جگہ حنظل (اندرائن) کے بوٹے تھے ۔ آپ نے پوچھا کہ اس جگہ کا کیا نام ہے ؟ کہا کربلا ۔ تو آپ نے فرمایا ! کرب و بلا ۔ پس آپ وہاں اترے اور نماز پڑھی ۔ پھر فرمایا کہ یہاں صحابہ کے علاوہ وہ لوگ شہید ہوں گے جو بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے اور آپ نے ایک جگہ کی طرف اشارہ کیا جہاں لوگوں نے نشان لگادیا چنانچہ جناب حسین اسی مقام پر شہید ہوئے ۔
پیشگوئی ۰۱ : حضرت اصبغ بن بناتہ سے روایت ہے کہ ہم حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی معیت میں قبرگاہِ حسین پر آئے تو جناب علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ شہیدوں کے اونٹ بٹھانے کی جگہ ہے اور اس جگہ کجادے رکھے جائیں گے اور یہ ان کے خون بہنے کا مقام ہے ۔ اہل بیت محمدﷺ کے کتنے ہی جوان یہاں شہید کردیئے جائیں گے اور روئیں گے ان پر زمین و آسمان ۔
پیشگوئی ۱۱ : حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے محمد رسول اللہﷺ پر وحی نازل فرمائی کہ ہم نے یحیی بن ذکریا کے قتل کے عوض ستر ہزار لوگوں کو مارا اور آپ کے بیٹے کے قتل کے بدلہ میں ستر ہزار اور ستر ہزار یعنی ایک لاکھ چالیس ہزار لوگوں کو ماریں گے (یہ روایت زینب بنت حجش سے بھی مروی ہے)
پیشگوئی ۲۱ : ام المؤمنین حضرت اُمِ سلمہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے جبرئیل نے خبردی ہے کہ میری امت کے لوگ اس (میرے بیٹے حسین کو) شہید کردیں گے اور ان لوگوں پر اللہ تعالیِٰ کا شدید قہر و غضب اس قتل کی وجہ سے نازل ہوگا ۔
پیشگوئی ۳۱ : ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ اپنی روایت میں مزید فرماتی ہیں کہ حضور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قاتل و ملعون یزید کو برکت نہ دے اس نے میرے پیارے بیٹے حسین کے ساتھ بغاوت کی اور انہیں شہید کرایا ۔ حسین کی تربت کی مٹی میرے پاس لائی گئی اور مجھے ان کا قاتل بھی دکھایا گیا اور بتایا گیا کہ جن کے روبرو حسین قتل کئے جائیں گے وہ ان کی مدد نہیں کریں گے اور اسی سبب سے اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک عذاب مسلط کدیا ہے ۔ امام عالی مقام سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پاک چونکہ جہری شہادت ہے اس لئے اس کے اعلانات خدا اور رسول کی طرف سے آپ کی ولادتِ مبارکہ کے ساتھ ہی شروع ہوگئے ۔ سرکاردوعالمﷺ کی پیشگوئیوں کی صورت میں یہ اعلان اس قدر مشہور اور متواتر ہیں کہ پہلوں پر بھی یہ شہادت عظمٰی اسی طرح ظاہر اور روشن تھی جس طرح بعد والوں میں ہے ۔