قرآن

   

نہیں ہیں محمدؐ (فداہٗ رُوحی ) کسی کے باپ تمہارے مردوں میں سے بلکہ وہ اللہ کے رسول اورخاتم النبیین ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے ۔ (سورۃ الاحزاب ۔ ۴۰)
(گزشتہ سے پیوستہ ) یہاں فقط یہی معنی مراد ہے اور یہ لوگ اگر مصر ہوں کہ یہاں خاتم کا دوسرا معنی مراد ہے تو اس سے بھی انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے مطالعہ کرتے ہوئے غورو تدبر سے کام نہیں لیا۔ انہوں نے مہر سے مراد ڈاکخانہ کی مہر یا کسی افسر کی مہر سمجھی ہے کہ لفافہ یا کارڈ پر مہر ٹھپہ لگایا اور اسے آگے بھیج دیا یا کسی کی درخواست پر اپنی مہر ثبت کی اور اسے مناسب کاروائی کے لئے متعلقہ دفتر روانہ کر دیا۔ حالانکہ مہر کا جو مفہوم اہل لغت نے لیا ہے وہ قطعاً اس کے خلاف ہے۔ کاش انہیں بےجا تعصب اس امر کی اجازت دیتا کہ وہ ائمہ لغت کی عبارتوں میں غور کرتے۔ آئیے! ہم آپ کی خدمت میں یہ عبارتیں پیش کرتے ہیں تاکہ آپ کسی صحیح فیصلہ پر پہنچ سکیں۔ لسان العرب میں ہے : ختم یختم ختما وختاما : طبعہ فھو مختوم ومختم شدد للمبالغۃ ۔ یعنی ختم کا معنی مہر لگانا ہے اور جس پر مہر لگا دی جائے اس کو مختوم اور مبالغہ کے طور پر مختم کہتے ہیں۔اس کے بعد لکھتے ہیں : اس عبارت کا ترجمہ ذرا غور سے سنیے یعنی ختم اور طبع کا لغت میں ایک ہی معنی ہے اور وہ یہ کہ کسی چیز کو اس طرح ڈھانپ دینا اور مضبوطی سے بند کر دینا کہ اس میں باہر سے کسی چیز کے داخلہ کا امکان ہی نہ ہو۔