قران

   

یہ حق ہے نیکو کاروں کا صحیفہ عمل علین میں ہوگا۔ اور ہمیں کیا خبر کہ علیون کیا ہے۔ یہ ایک لکھی ہوئی کتاب ہے ، (حفاظت کے لئے) دیکھتے رہتے ہیں اسے مقربین۔ بے شک نیکوکار راحت و آرام میں ہوں گے۔ (سورۃ المطففین۔ ۱۸تا۲۲)
جس دیوان میں ابرار و صالحین کے اعمال حسنہ کو لکھ کر محفوظ کردیئے جائیں گے، اس کا نام علیین ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ علیین سبز رنگ کی زبرجد کی ایک لوح ہے، جو عرش کے ساتھ معلق ہوگی اور اس میں صالحین کے اعمال مکتوب ہوں گے۔ اس مقام پر علامہ ثناء اللہ پانی پتی نے ایک بحث لکھی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے: وہ لکھتے ہیں ’’بعض احادیث میں مذکور ہے کہ شہداء اور مؤمنین کی ارواح جنت کے سبز رنگ کے پرندوں میں ہوں گی اور بعض احادیث میں آیا ہے کہ مؤمن کی روح اس کے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے۔ مثلاً بخاری شریف میں موجود ہے کہ شب اسریٰ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنی قبر میں نماز پڑھتے دیکھا۔ احادیث میں اس تعارض کا کیا جواب ہے‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’ان متعارض احادیث کی تطبیق اس طرح ہے کہ مؤمنین کی ارواح کا مقر (ٹھہرنے کی جگہ) تو علیین میں ہے یا ساتویں آسمان میں اور کفار کی روحوں کا ٹھکانہ سجین میں ہے۔ اس کے باوجود ہر روح کا اپنے جسم کے ساتھ اپنی قبر میں ایک تعلق ہے، جس کی حقیقت کو اللہ تعالی ہی جانتا ہے۔ اسی تعلق کی وجہ سے میت اپنے زائر کے سلام کو سنتی ہے اور منکر و نکیر کے سوالوں کا جواب دیتی ہے۔ اسی طرح دوسرے احوال جو کتاب و سنت سے ثابت ہیں ظہور پزیر ہوتے ہیں‘‘۔