قرآن

   

(نیز) اسے قرآن کا بیان سکھایا۔ سورج اور چاند حساب کے پابند ہیں۔ (سورۂ رحمٰن ۔۴۔۵)  
قرآن بھی اللہ تعالیٰ نے اتارا ہے اور اس کا بیان بھی اسی نے سکھایاہے۔ اب جو شخص آیات قرانیہ کو وہ معانی پہناتا ہے جو سنت نبوی کے خلاف ہیں تو وہ صرف سنت کا انکار نہیں کر رہا ہے بلکہ قرآن کے بیان خداوندی سے روتابی کر رہا ہے ۔اس مہر وماہ کے ذکر کے بعد جس سے عالم روحانیت کے در و بام جگمگا رہے ہیں، اب اس شمس قمر کا ذکر کیا جا رہا ہے جن سے ہماری یہ مادی دنیا اکتساب نور کر رہی ہے۔ فرمایا کہ یہ سورج اور چاند مقررہ حساب کے مطابق حرکت کر رہے ہیں۔ جو منزلیں اور بروج ان کے لیے مقرر ہیں نہ ان سے تجاوز کرتے ہیں اور نہ روگردانی۔ اپنے مدار میں مصروف سیر ہیں۔ کیا مجال کہ سرِ مو دائیں یا بائیں سرکیں یا لمحہ بھر کی بھی تقدیم وتاخیر ہو۔ قال ابن عباس وقتادۃ ای یجریان بحساب فی منازل لا یعدو انھا ولا یحید انھا۔ اسی نظام کی پابندی کے باعث وقت پر موسم بدلتے ہیں۔ وقت پر دن طلوع ہوتا ہے اور رات آتی ہے۔ ہر روز مقررہ وقت پر ان کا طلوع وغروب ہوتا ہے اسی لیے تم ماہ وسال کا حساب کرسکتے ہو۔ اگر اس نظام میں ذرا سا خلل بھی آجائے تو ساری کائنات چشم زدن میں درہم برہم ہوجائے۔ نظام شمسی میں جو باقاعدگی اور نظم وضبط ہے کیا یہ اللہ کی شان رحمانیت کا ظہور نہیں ہے؟ یقیناً ہے۔