قرآن

   

جب قیامت برپا ہوجائے گی ۔ نہیں ہوگا جب یہ برپا ہوگی (اسے ) کوئی جھٹلانے والا ۔ (سورۃ الواقعہ۱۔۲)
قرآن کریم میں قیامت کو مختلف ناموں سے یاد کیا گیا ہے۔ الصافۃ، الطامۃ، الاٰزفۃ۔ اسی طرح اس کا ایک نام الواقعۃ بھی ہے، کیونکہ یہ ضرور وقوع پذیر ہوگی۔ کوئی ایسی طاقت نہیں جو اسے روک سکے اس لیے اسے الواقعۃ کہا گیا ہے۔ زجاج نے کاذبۃ کا یہ معنی بتایا ہے ای لایردھا شیئ۔ یعنی کوئی چیز اس کو رد نہیں کرسکتی۔ کسی میں ایسی طاقت نہیں ہے جو اسے وقوع پذیر ہونے سے روک سکے۔ثوری نے اس کا یہ مفہوم ذکر کیا ہے ۔ لیس لوقعتھا احد یکذب بھا۔ یعنی جب یہ وقوع پذیر ہوجائے گی تو کوئی شخص انکار نہیں کرسکے گا۔ کسی میں یہ جرأت نہ ہوگی کہ اس کے واقعہ ہونے کو جھٹلا سکے۔ اس کا ایک اور معنی بھی بتایا گیا ہے۔ ان قیامھا جد لا ھزل لہ۔ یعنی قیامت کا رد پذیر ہونا کوئی مذاق نہیں، بلکہ یہ سچی بات ہے۔کفار قیامت کا انکار کیا کرتے تھے اور یہ سمجھتے کہ مرنے کے بعد جی اٹھنا ناممکن ہے۔ وہ ہر گز اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھے کہ یہ زمین، یہ فلک، یہ چاند، یہ تارے سب کچھ درہم برہم ہوجائے گا۔ اس لیے قرآن کریم نے حتمی انداز میں یہ بتادیا کہ تم لاکھ انکار کرو قیامت ضرور برپا ہوگی۔ تم سب مل کر بھی اسے روکنا چاہو تو اسے روک نہیں سکو گے۔ تم آج انکار کر رہے ہو، کل جب اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرلو گے تو تم اس کو جھٹلا نہیں سکو گے۔