قطب الاقطاب حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ

   

ابوزہیر سید زبیر ہاشمی نظامی (مدرس جامعہ نظا میہ)
ولادت : ۲۹ شعبان المعظم ۴۷۰؁ ہجری

نحمدہ و نصلی و نسلم علی رسولہ الکریم
قرآن مجید کا انداز اور اسلوب بیان اپنے اندر حکمت و موعظت کا پیرایہ لئے ہوئے ہے۔ اسی موعظت بھرے انداز میں بعض اوقات قرآنی آیات کے براہ راست مخاطب حضور ﷺ کی ذات بابرکت ہے، لیکن آپ ﷺ کے ذریعہ قیامت تک آنے والی پوری امت کو حکم دینا مقصود ہے۔ جیسا کہ سورۂ کہف آیت نمبر ۲۸میں ہے ’’آپ اپنے آپ کو ان لوگوں سے جڑے رہیں، جو صبح و شام اپنے رب کو یاد کرتے ہیں، اسکی رضا کے طلبگار رہتے ہیں، تیری نگاہیں ان سے نہ ہٹیں‘‘۔اس آیت میں رسول اکرم ﷺ کے ذریعہ سے امت کو یہ حکم دیا جارہا ہے کہ وہ ان لوگوں کی معیت، سنگت اختیار کریں اور انکے ساتھ دلجمعی سے بیٹھے، جو صبح و شام اللہ تعالیٰ کی یاد میں مست رہتے ہیں۔ وہ لوگ چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے کسی چیز کی طلب نہیں کرتے، بلکہ وہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی رضا طلب کرتے ہیں۔
حضرت سیدنا غوث اعظم دستگیر علیہ الرحمہ، حضرت خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمہ، حضرت داتا گنج بخش علیہ الرحمہ اور حـضرت محمدانواراﷲفاروقی (بانی جامعہ نظامیہ) علیہ الرحمہ اُن لوگوں میں سے ہیں، جنہوں نے خود کو اﷲتعالیٰ کے قریب کرلیا تھا۔ ہمیں ایسے ہی حضرات کی صحبت اختیار کرنے اور اُن سے اکتساب فیض کا حکم دیا گیا ہے۔ یعنی جو شخص اﷲتعالیٰ کے کسی ولی کی مجلس میں بیٹھے گا، اسے اﷲتعالیٰ کی قربت نصیب ہوگی۔اِن حضرات کا مقصد صرف اور صرف یہی ایک رہتا ہے کہ انہیں دیدارالٰہی ملجائے۔ لہذا عام امت مسلمہ کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جو لوگ اﷲتعالیٰ کے دیدار کے طلبگار ہیں، انہیں بھی اُن کے مکھڑے کو تکتے رہنا چاہئے۔
نبوت کا دروازہ بند ہوچکا ہے۔ اب اس فیضان کے سلسلہ کو جاری رکھنے کیلئے اﷲتعالیٰ نے اپنے محبوب اور مقرب اولیائے عظام کا سلسلہ جاری فرمادیا۔ اولیائے عظام کا تعلق اپنے آقا و مولیٰ حضور ﷺ سے کبھی نہیں ٹوٹتا اور انکی قلبی اسکرین ہمہ وقت گنبد خضراء کی نشریات سے بہرہ یاب رہتی ہے۔ جیسا کہ ایک بزرگ حضرت ابوالعاص علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ’’اگر ایک لمحہ کیلئے بھی چہرہ مصطفی ﷺ میرے سامنے نہ رہے تو میں اس لمحے خود کو مسلمان نہیں سمجھتا‘‘۔ (روح المعانی) اﷲتعالیٰ کے بندوں کا گنبدخضراء اور حضور ﷺ سے تعلق و ربط کسی بھی لمحہ نہیں ٹوٹتا۔ اسلئے وہ تکتے بھی رہتے ہیں اور سنتے بھی رہتے ہیں۔
مالک ذوالجلال ا ﷲرب العزت نے بندوں کی رہبری اور ہدایت کے لئے اپنے احکامات اور ارشادات ِمصطفی ﷺ کو مختص فرمایاہے ۔ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام ، صحابہ رضوان اﷲتعالیٰ علیہم اجمعین ،تابعین ،تبع تابعین اور اولیائے عظام رحمہم اﷲیہ تمام کے تمام بندگانِ خدا کو راہِ ہدایت بتلاتے رہے۔آج کے اس پُرفتن دور میں انسان پر لازم ہے کہ وہ راہِ ہدایت کو تلاش کرتے رہے۔ آج ہمارا دل دنیوی لوگوںسے ، دنیاوی اشیاء سے، دنیاوی اغراض سے ،مال ومتاع سے مانوس ہوچکاہے۔ جوہ یہ سب فانی ہے جب کہ مانوس تواُن لوگوں سے ہونا چاہیے تھاکہ جن کااوڑھنا بچھونا تقویٰ وطہارت کا ہو۔اب اِس زمانہ میں بزرگانِ دین اور علمائے دینِ متین ہی ایسے ہیں جن کی صحبتوں اور معیتوں سے ہماری زندگی میں انقلاب آئیگا۔ جیساکہ ایک حدیث شریف میں آیاہے جس کا خلاصہ یہاںبیان کیاجاتا ہے کہ حضورنبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ توساتھ مت رہ مگر مومن کے ، اورتیرا کھانانہ کھائے مگر متقی اور پرہیزگار۔ (ألحدیث)
حضرت سیدنا شیخ عبدالقادری جیلانی رحمۃ اﷲعلیہ نے ارشاد فرمایا: اگر تمہیں اللہ کی رحمت سے مایوس ہونے لگے تو سمجھ لینا کہ تمہارا یقین و ایمان بہت کمزور ہے ۔ ورنہ اللہ تعالیٰ نے اپنی شرطِ اطاعت کے ساتھ مومن سے جو وعدہ کر رکھے ہیں ان کی خلاف ورزی وہ ہرگز نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ کی ظاہری و باطنی نعمتیں تمہارے لئے کشادہ ہوجائیں گی۔
حضرت شیخ الاسلام بانی جامعہ نظامیہ فرماتے ہیںکہ حضرت پیران پیر رحمۃ اﷲعلیہ کو اِس وقت بھی وہی سلطنت معنوی حاصل ہے جو زندگی میں تھی۔ جنات کو چونکہ بوجہ لطافت روحانیت سے مناسبت ہے اس لئے وہ اس عالم کے حالات کا مشاہدہ کرتے ہیں جو عام انسان نہیں کرسکتے ۔ مگر حضرت انسان کو بھی ایک ایسی قوت دی گئی ہے کہ اگر اُس میں کمال حاصل کریں تو اس عالَم کے علاوہ ایسی چیزوں کا بھی مشاہدہ کرسکتاہے کہ جس سے ’’جنات‘‘ بھی حیران ہوجائیں۔ حضرت پیران پیر رحمہ اﷲ نے فرمایا :
٭ فرمایا ’’ تم رمضان میں اپنے نفسوں کو پانی پینے سے روکتے ہو اور جب افطار کا وقت آتا ہے تو مسلمانوں کے خون سے افطارکرتے ہو اور ان پر ظلم کرکے جو مال حاصل کیا ہے ، اسے نگلتے ہو ‘‘ ۔
٭ فرمایا ’’ اے لوگو ! افسوس کہ تم سیر ہوکر کھاتے ہو اور تمہارے پڑوسی بھوکے رہتے ہیں اور پھر دعوی کرتے ہو کہ ہم مؤمن ہیں ‘‘ ۔
٭ فرمایا ’’ عارف کے لئے آداب ضروری ہیں ‘‘ ۔
٭ فرمایا ’’ بے عمل بات کوڑی کے کام کی نہیں ‘‘ ۔
٭ فرمایا ’’ مسلمانوں میں سے کسی کو حقیر نہ جانو ‘‘ ۔
٭ فرمایا ’’ رزق مقسوم ہے کہ وہ زیادہ ، کم اور مقدم و مؤخر نہیں ہوتا ‘‘ ۔
٭ فرمایا ’’ اے اللہ کے بندو ! توبہ کرو ، تم میں سے ہر ایک توبہ کا محتاج ہے ‘‘ ۔
٭ فرمایا ’’ تقوی کی کنجی توبہ ہے اور اس پر قائم رہنا اللہ تعالی کے قرب کی کنجی ہے ‘‘ ۔
اﷲتعالیٰ ہم سب کو نیک توفیق عطا فرمائے۔ آمین