لاک ڈاؤن

   

ہجر کی رات ہو کہ صبح نشاط
زندگی زندگی ہی رہتی ہے
لاک ڈاؤن
کورونا وائرس کے خلاف ساری دنیا کے حکمرانوں اور عوام نے خود کو متحرک کردیا ہے ۔ لاک ڈاؤن کے ذریعہ وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ ہندوستان میں بھی مختلف ریاستوں میں لاک ڈاؤن کیا گیا ہے ۔ تلنگانہ حکومت نے بھی 31 مارچ تک لاک ڈاؤن کے ذریعہ کورونا وائرس کو مزید پھیلنے سے روکنے کے اقدامات کئے ہیں ۔ وزیراعظم نریندر مودی کی اپیل پر ملک بھر کے عوام نے ’ جنتا کرفیو ‘ میں حصہ لے کر خود کو کورونا وائرس سے بچانے میں اہم رول ادا کیا ۔ شہریوں کے تعاون سے ہی حکومتوں کو حفظان صحت کے خدمات کو یقینی و بہتر بنانے میں مدد ملے گی ۔ لاک ڈاؤن کرنے والے ممالک میں کورونا وائرس کا پھیلاؤ کم ہوا ہے ۔ اس لیے ہندوستان اور اس کی بعض ریاستوں نے بھی 22 مارچ سے 31 مارچ تک لاک ڈاؤن کا اعلان کیا ہے ۔ عوام الناس کا اس لاک ڈاؤن کے دوران گھروں میں رہنے کو یقینی بنانا ضروری ہے ۔ حکومت نے پہلی مرتبہ سارے ملک میں ریلوے سرویس کو بھی 31 مارچ تک معطل کردی ہے ۔ سڑکوں پر ٹرافک کی کمی بلکہ سڑکیں ، محلے ، گلی ، کوچے صاف ستھرے ہوں تو یہاں ہوا کی کوالٹی میں بہتری آئے گی ۔ جیسا کہ دیگر ملکوں میں یہ تجربہ کیا گیا ہے کہ کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے جن ملکوں میں 15 دن کا لاک ڈاؤن کیا گیا وہاں کی فضائی آلودگی پر قابو پانے میں مدد ملے گی اور ہوا کا معیار اور آکسیجن کی سطح میں بہتری آئی ۔ لاک ڈاؤن سے ہوا کے معیار میں بہتری آنے کی توقع ہے ۔ اس سے عوام کو ایک صاف ستھرا ہوا ملے گی ۔ چین کے شہر وہان کی فضاء میں نائیٹروجن ڈائی آکسائیڈ (NO2) کے مقدار میں واضح کمی ہوئی تھی جس سے کورونا وائرس کا پھیلاؤ بتدریج کم ہوتا گیا ۔ نائیٹروجن آکسائیڈ کا اخراج ٹرافک اور موٹر گاڑیوں کے دھویں سے پیدا ہوتا ہے ۔ اس دھویں کی مقدار میں کمی سے ہوا صاف ہوجاتی ہے ۔ لاک ڈاؤن سے وائرس پر قابو پانے میں مدد مل رہی ہے ، اس لیے ہندوستانی عوام بالخصوص تلنگانہ کے عوام کو اس لاک ڈاؤن پر عمل کرتے ہوئے کورونا وائرس پر قابو پانے میں ایک دوسرے کا تعاون کرنا چاہئے ۔ نوجوانوں کو اس مسئلہ پر لاپرواہی نہیں کرنی چاہئے ۔ ورلڈ ہیلت آرگنائزیشن ( WHO ) نے تمام ملکوں پر زور دیا ہے کہ وہ وباء پر قابو پانے کے لیے احتیاطی اقدامات کرنے میں تاخیر نہ کریں ۔ ہندوستان اور ریاستی حکومتوں نے بروقت اقدامات کرتے ہوئے جنتا کرفیو اور اب لاک ڈاؤن کا اعلان کیا ہے جس سے وائرس کے خاتمہ میں مدد ملے گی ۔ وائرس سے متاثرہ افراد کے بہتر علاج کے ساتھ ان سے رابطہ میں آنے والوں سے فاصلہ برقرار رکھنے کی کوشش سے بچاؤ ہوسکتا ہے ۔ بزرگوں کو حد درجہ احتیاط کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے ۔ بزرگ حضرات اس لاک ڈاؤن کے علاوہ خود کو گھروں میں ہی محفوظ رکھ لیں ۔ جہاں تک لاک ڈاؤن سے وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کا سوال ہے یہ ایک اچھی کوشش ہے مگر حکومتوں کو اس سے ہٹ کر بھی جنگی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جیسا کہ عالمی صحت تنظیم WHO کے اعلیٰ سربراہ ٹاک رہاں نے صحت عامہ کے لیے اولین اقدامات کی ضرورت پر زور دیا ہے تاکہ یہ وائرس دوبارہ اُبھر کر سامنے نہ آسکے ۔ لاک ڈاؤن سے صرف وقتی طور پر وائرس کو روکنے میں مدد ملے گی لیکن وائرس کے خاتمہ کے لیے موثر حفاظتی اقدامات ادویات کا چھڑکاؤ اور ٹیکہ کی تیاری پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ صرف لاک ڈاؤن سے کسی وائرس کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جاسکتا ۔ کچھ حد تک وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد ملے گی لیکن وائرس کے مکمل خاتمہ کے لیے ضروری ہے کہ حکومتوں کی طرف سے مالیاتی اقدامات کیے جائیں ۔ اتوار کے روز جنتا کرفیو اور ساری دنیا کے مختلف ملکوں میں جاری لاک ڈاؤن کے باوجود کورونا وائرس سے فوت ہونے والوں کی تعداد 13000 تک پہونچ گئی ۔ یہ تعداد تشویشناک ہے اس لیے اموات کا سلسلہ روکنے کے لیے طبی اقدامات ضروری ہیں ۔ احتیاطی اقدامات کے بعد طبی اور ہنگامی صحت اقدامات پر فوری توجہ دی جانی چاہئے ۔ لاک ڈاون سے معیشت کی تباہی تو ہورہی ہے لیکن انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے اس طرح کے لاک ڈاؤن ضروری سمجھنے والی حکومتوں کو چاہئے کہ کورونا وائرس کے خاتمہ کے لیے فوری ٹیکہ ایجاد کرنے اور ادویات کی تیاری کو یقینی بنایا جائے ۔۔