لاک ڈاون ‘ امداد ندارد

   

مرکزی حکومت کی جانب سے ملک میں کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاون میں مزید دو ہفتوں کی توسیع کردی گئی ہے ۔ حالانکہ اس بار ایسے کوئی واضح اشارے نہیں تھے کہ لاک ڈاون میں توسیع ہوگی تاہم آج مرکز نے اعلان کردیا کہ 4 مئی کے بعد لاک ڈاون مزید دو ہفتوں تک جاری رہے گا ۔ حالانکہ حکومت کی جانب سے تین زونس کی بھی تشریح کی گئی ہے لیکن یہ بات طئے ہے کہ ملک بھر میں لاک ڈاون جاری رہے گا ۔ لاک ڈاون کا آغاز جب 22 مارچ کو جنتا کرفیو کے دو دن بعد کیا گیا تھا اس وقت کے بعد مرکزی حکومت کی جانب سے ایک امدادی پیکج کا اعلان کیا گیا تھا ۔ غریب عوام کیلئے چاول اور نقد رقم کی فراہمی کا اعلان کیا گیا تھا اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ ہزاروں خاندانوں کو گیس سلینڈرس بھی مفت سربراہ کئے جائیں گے ۔ اس کے بعد سے اب تک یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ واقعی یہ امداد کہاں تقسیم کی گئی ۔ یہ درست ہے کہ کچھ لوگوں کے بینک کھاتوں میں پانچ سو روپئے جمع کروائے گئے ہیں لیکن حکومت کویہ بات سمجھنا چاہئے کہ آج کے مہنگائی والے دور میں اور خاص طور پر لاک ڈاون میں پانچ سو روپئے دو دن سے زیادہ کے گذر کیلئے کافی نہیں ہوسکتے ۔ لاک ڈاون پہلی مرتبہ 21 دن کیلئے لاگو کیا گیا تھا اور اس دوران امداد کا اعلان ہوا تھا ۔ تاہم اس کے بعد 19 دن کی توسیع کی گئی تھی اور اس دوران کوئی امداد دوبارہ فراہم کرنے کا اعلان نہیں ہوا ۔ اب جبکہ 19 دن کا لاک ڈاون ختم ہونے دو دن باقی تھے اس میں مزید دو ہفتوں کی توسیع کردی گئی ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اب بھی کسی نئے امدادی پیکج کا اعلان نہیں کیا گیا ۔ حالانکہ ملک میں جو حالات ہیں ان سے حکومت ناواقف نہیں ہوسکتی ۔ کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس پر کورونا وائرس کے لاک ڈاون کی وجہ سے منفی اثرات مرتب نہیں ہوئے ہوں۔ صرف صنعت کار اور بڑے تاجر ہوسکتا ہے کہ اس لاک ڈاون کی وجہ سے زیادہ پریشان نہ ہوں لیکن نہ صرف غریب آدمی بلکہ مڈل کلاس طبقہ بھی اس سے بری طرح متاثر ہوا ہے ۔ لوگوں کی آمدنی تقریبا ختم ہوگئی ہے اور جو ان کی جمع پونجی تھی وہ بھی لاک ڈاون میں ختم ہو تی جا رہی ہے ۔ اس کا سبھی کو علم ہے ۔

درمیان میں تارک وطن مزدوروں کا مسئلہ انتہائی سنگین ہوتا چلا گیا تھا ۔ بعض موقعوں پر تو یہ مزدور تنگ آکر احتجاج پر اتر آئے تھے ۔ تاہم انہیں سمجھا بجھا کر خاموش کردیا گیا ۔ ان کے مسئلہ کا بھی کوئی مستقل حل دریافت نہیں کیا گیا تھا اور عارضی اقدامات ہی پر اکتفاء ہوا تھا ۔ تاہم اب ایسا لگتا ہے کہ تارک وطن مزدوروں کا مسئلہ بڑی حد تک حل ہوسکے گا کیونکہ ان مزدوروں کو ان کے آبائی مقامات کو منتقل کرنے کیلئے فارمولا طئے پا رہا ہے ۔ تاہم یہی ایک مسئلہ نہیں تھا جس پر حکومت کو غور کرنے کی ضرورت تھی ۔ ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ اب اس حالت میں آگیا ہے کہ وہ بھی سرکاری امداد کا مستحق کہلانے لگا ہے اور اسی انتظار میں ہے کہ حکومت ان کیلئے بھی کسی راحت کا سامان کریگی ۔ لوگوں کے گھروں میں چولہے جلنے مشکل ہوگئے ہیں۔ ابتداء میں دو وقت کی روٹی پر گذارا کرنے والے اب ایک وقت کے کھانے تک محدود ہونے لگے ہیں۔ اگر لاک ڈاون کوروناو ائرس کے پھیلاو کو روکنے کیلئے ضروری ہے تو فاقہ کشی کو روکنے کیلئے حکومت کی جانب سے فراخدلانہ امداد و راحت بھی ضروری ہے ۔ محض صاحب خیر افراد یا پھر امدادی و خیراتی تنظیموں پر انحصار کرتے ہوئے حکومت بری الذمہ نہیں ہوسکتی ۔ حکومت کو بھی اپنی ذمہ داری محسوس کرنے کی ضرورت ہے اور جس طرح کورونا کے پھیلاو کو روکنے پر ساری توجہ مرکوز کی جا رہی ہے اسی طرح اس بات کو بھی یقینی بنانے پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے کہ کوئی بھوکا نہ سونے پائے یا فاقہ کشی سے کسی کی جان نہ جائے ۔

ملک کے کارپوریٹ طبقہ کی جانب سے اور کئی اہم شخصیتوں و اداروں کی جانب سے حکومت کو فراخدلانہ عطیات فراہم کئے جا رہے ہیں۔ حکومت کو تمام تر وسائل کو مجتمع کرتے ہوئے عوام کی بہتری پر خرچ کرنے کی ضرورت ہے ۔ چند سو روپئے کی امداد یا پانچ سات کیلو چاول کسی خاندان کیلئے دو مہینے کا راشن نہیں ہوسکتے ۔ ملک کے تقریبا ہر خاندان کی آمدنی متاثر ہوگئی ہے بلکہ بند ہوگئی ہے ۔ ایسے میں ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ اب حکومت کی امداد کا منتظر ہے اور آج جب مرکز کی جانب سے لاک ڈاون میں توسیع کردی گئی ہے تو حکومت کا یہ فریضہ تھا کہ وہ راحت و امدادی پیکج کا بھی اعلان کرتی ۔ تاہم اب بھی حکومت اس پہلو پر غور کرستی ہے اور اسے جلد عوام کیلئے راحت کا سامان فراہم کرنا ہوگا ۔