لاک ڈاون میں عید

   

عید کا دن اور اتنا مختصر
دن گنے جاتے تھے اس دن کیلئے
لاک ڈاون میں عید
آج عید الفطر ہے ۔ سارے ملک میں لاک ڈاون کے دوران عید منائے جانے کی یہ پہلی مثال ہے ۔ سارا رمضان المبارک لاک ڈاون میں گذرا ۔ مساجد میں عام مسلمانوں کو ایک وقت کی نماز کی تک اجازت نہیں دی گئی ۔ صرف محدود مصلیان کو مساجد میں نماز پنجگانہ کی اجازت تھی ۔ تراویح اور جمعہ کی اجازت نہیں دی گئی ۔ لاک ڈاون تحدیدات کے نتیجہ میں عوام کو اپنے گھروں پر ہی نمازوں و عبادتوں کا اہتمام کرنا پڑا ۔ اسی طرح لاک ڈاون کے نتیجہ میں کروڑہا افراد اپنے روزگار سے محروم ہوگئے ہیں۔ ان کی آمدنی متاثر ہوکر رہ گئی تھی ۔ لاکھوں خاندانوں کو فاقہ کشی پر مجبور ہونا پڑا اور کروڑوں تارک وطن مزدور بے یار و مددگار سڑکوں پر پیدل سفر پر نکل پڑے ہیں۔ ان کی مشکلات و مصائب ناقابل بیان ہے ۔ عید الفطر سے چار دن قبل بازاروں کو کھولنے کی اجازت دی گئی تھی لیکن عوام کی اکثریت نے ذمہ داری اور جذبہ ملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بازاروں کا رخ کرنے سے گریز کیا ۔ بیشتر مقامات پر خود تاجرین نے اپنی دوکانیں عید کے بعد کھولنے کا اعلان کردیا ۔ یہ ساری صورتحال ایسی تھی جو شائد موجودہ نسل کو زندگی میں پہلی بار مشاہدہ میں آئی ہے ۔ تاہم ایک بات کا احساس ضرور ہوا کہ لوگ انسانیت کے نام پر ایک دوسرے کی مدد کیلئے مشکل ترین حالات میں بھی آگے آنے سے گریز نہیںکرتے ۔ لاک ڈاون کے ابتدائی مراحل اور پھر ماہ رمضان المبارک میں اس کی ایسی منفرد مثالیں ملی ہیں جو فطرت انسانی پر اچھے نقوش چھوڑتی ہیں۔ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں خاندانوں تک راشن کٹس کی تقسیم عمل میں لائی گئی ۔ کسی کی مالی مدد کی گئی تو کسی کو ادویات سے مدد فراہم کی گئی ۔ مائیگرنٹ مزدوروں کیلئے کھانے اور پانی کا انتظام کیا گیا ۔ ان میں چپلیں تقسیم کی گئیں۔ ان کیلئے کرایہ کا انتظام کیا گیا ۔ بسوں اور ٹرین سے سفر میں مدد فراہم کی گئی ۔ غرض یہ ہے کہ ہر ایک نے اپنے اپنے طور پر جذبہ انسانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کی ممکنہ حد تک مدد کی ہے اور غریب و مفلوک الحال افراد کی پریشانیوں کو دور کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی ۔ یہی جذبہ انسانیت ہے اور یہی اصل عبادت ہے ۔
آج عید الفطر ہے اور امت مسلمہ ایک ماہ تک اللہ رب العزت کی رضا و خوشنودی کیلئے روزوں اور نمازوں کے بعد آج عید منا رہی ہے ۔ تاہم آج بھی ہمارے بے شمار بہن بھائی ایسے ہیں جو عید کی خوشیاں نہیں مناسکتے ۔ انہیں د وقت کی روٹی ملنی تک مشکل ہوگئی تھی ۔ ایسے میں ان کیلئے عید کی خوشیاں ممکن نہیں تھی ۔ ہندوستان کے مسلمانوں کی اکثریت نے عید سادگی سے مناتے ہوئے ان غریب بھائی بہنوں سے اظہار یگانگت کا فیصلہ کیا ہے جو قابل قدر ہے ۔ تاہم یہی جذبہ کافی نہیں ہے ۔ صاحب خیر اور استطاعت رکھنے والے افراد کو ایسے لوگوں کی مدد عید کے موع پر بھی کرنی چاہئے جن کے گھروں میں عید نہیں منائی جا رہی ہے ۔ ان بچوں کے چہروں پر بھی مسکراہٹیں بکھیرنے کیلئے کوشش کرنی چاہئے جن کے چہروں اور دلوں میںغربت و افلاس کی وجہ سے مایوسی نے گھر کرلیا ہے ۔ ان بیواوں کی مدد کرنا چاہئے جن کے سہاگ اس دنیا سے جاچکے ہیں۔ ان ماووں اور بہنوں کو بھی عید کی خوشیوں میں حصہ دار بنانا چاہئے جن کے پاس کسی طرح کے وسائل نہیں ہیں۔ ان ضعیف اور معمر افراد کو بھی زندگی کا احساس دلانا چاہئے جنہیں زمانہ کی ستم ظریفیوں نے خود سے بھی بیگانہ کردیا ہے ۔ ان بھائیوں تک بھی عید کی خوشیاں بانٹی جانی چاہئے جنہیں نامساعد حالات اور مشکلات نے مغموم کردیا ہو۔ سبھی کو عید کی خوشیوں میں شامل کرتے ہوئے ہی ہم اپنی عید مناسکتے ہیں۔
لاک ڈاون نے ایک ایسی مشکل ترین صورتحال ہمارے سامنے پیدا کردی تھی جس کی سابق میں ہمارے لئے کوئی مثال نہیں تھی ۔ آج عید بھی اسی لاک ڈاون میں منائی جا رہی ہے ۔ نماز عید بھی گھروں پر ادا کرنے کو کہا گیا ہے ۔ لیکن ہمیں اپنے آس پاس اور سماج کے کمزور طبقات کا خیال رکھتے ہوئے اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ کم از کم آج عید کے دن ہمارا کوئی بھائی اور کوئی بہن عید کی خوشیوں سے محروم نہ ہو سکے ۔ حالانکہ اس بار عید الفطر کے روایتی جوش و خروش کا مکمل فقدان ہے لیکن عید روزہ داروں اور عبادت گذاروں پر اللہ کا انعام ہے اور اس انعام پر ہمیں اللہ تبارک و تعالی کا مزید شکر ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ شکر ہم اپنے مفلوک الحال بھائیوںاور بہنوں کو خوشیوں میں شریک کرتے ہوئے بہتر انداز میں ادا کرسکتے ہیں۔