ماحولیاتی فنڈ کے قیام کیساتھ عالمی کلائمیٹ سمٹ کی پہلی کامیابی

   

l اب اصل کام شروع ہوا ہے l میں خود اس چیلنج سے نمٹنے آگے بڑھوں گا l امارات کے سلطان الجابر کا اعلان

دوبئی : موسمیاتی بحران سے سب سے زیادہ متاثر ملکوں کی مدد کے لیے جرمنی اور متحدہ عرب امارات نے فی کس ایک سو ملین ڈالر کی مدد کا اعلان کیا۔ کلائمیٹ سمٹ کے پہلے روز ہی ماحولیاتی فنڈ کے قیام کے اعلان کو اہم پیشرفت قرار دیا جارہا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے جب ’’خسارہ اور نقصان فنڈ‘‘ میں رقم دینے کا اعلان کیا گیا۔ اس پر گذشتہ سال مصر میں منعقدہ عالمی ماحولیاتی سمٹ (سی او پی 27) میں اتفاق رائے ہوا تھا۔ اس سے ان چھوٹے ملکوں کی مدد کی جائے گی جو سب سے زیادہ کاربن کا اخراج کرنے والے بڑے ملکوں کی وجہ سے ماحولیاتی بحران سے دوچار ہیں۔دوبئی میں جمعرات کے روز شروع ہونے والی اقوام متحدہ کی عالمی موسمیاتی کانفرنس میں ’’خسارہ اور نقصان فنڈ ‘‘ کے لیے برطانیہ، امریکہ اور جاپان نے بھی چھوٹی مالی امداد دینے کے وعدے کیے۔عالمی ماحولیاتی سمٹ کی صدارت کرنے والے تیل کی دولت سے مالا مال ملک متحدہ عرب امارات کے سلطان احمد الجابر نے اس فنڈ میں مالی مدد دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اب اصل کام شروع ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں خود آگے بڑھ کر یہ کام کروں گا اور اس چیلنج سے نمٹنے کی کوشش نیز حقیقی اور قابل عمل نتائج فراہم کروں گا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ خسارہ اور نقصان فنڈ کے اعلان کے بعد ملکوں میں ’’مثبت اور پرامید‘‘ جذبہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔سلطان جابر جو متحدہ عرب امارات کی قومی تیل کمپنی این ڈی این او سی کے سربراہ بھی ہیں، نے کہا کہ معدنی ایندھن کے کردار کو اقوام متحدہ کے ماحولیاتی مذاکرات میں شامل کیا جانا چاہئے۔ماحولیات کیلئے سرگرم کارکنوں، موسمیاتی اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک اور اقوام متحدہ کے سربراہ انٹونیو گوٹیرس نے معدنی ایندھن (فوسل ایندھن) کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے، جو کہ گرین ہاوس گیسوں کے تین چوتھائی اخراج کے لیے ذمہ دار ہے۔ بالخصوص کمزور ملکوں کو ہونے والے ماحولیاتی نقصانات کی تلافی کیلئے متحدہ عرب امارات اور جرمنی کی جانب سے مالی امداد دینے کے اعلان کے بعد جرمن وزیر ترقیات سوینجا شولز نے چین سے بھی اس فنڈ میں اپنا حصہ ڈالنے کی اپیل کی۔ جرمن وزیر نے جمعہ کو ایک اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ چین اور دیگر ابھرتے ہوئے ملکوں کو بھی متحدہ عرب امارات کے عمل کی تقلید کرنی چاہئے اور نئے فنڈ میں اپنا حصہ ڈالنا چاہئے۔ متحدہ عرب امارات فنڈ کی جانب سے رقم دینے کے اعلان کے ساتھ ہی وہ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی فنڈ کیلئے دروازہ کھولنے والا پہلا ملک بن گیا ہے۔ شولز نے کہا کہ اس طرح ہم مالی امداد میں حصہ لینے والے روایتی صنعتی ملکوں کے چھوٹے گروپ اور دیگر ملکوں کے درمیان پرانی تقسیم پر قابو پارہے ہیں۔ انہو ں نے مزید کہا کہ اس نظیر سے یہ واضح ہوتا ہیکہ خلیجی ریاستوں جیسے ممالک کی بھی ذمہ داری ہے۔ وہ بھی بہت زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کرتے ہیں اور موسمیاتی نقصانات سے نمٹنے میں غریب ممالک کی مدد کرنے کے متحمل ہیں۔
دوبئی میں 30 نومبر کو شروع ہوکر 12دسمبر تک چلنے والی اقوام متحدہ کی موسمیاتی عالمی کانفرنس تاریخ کی سب سے بڑی ماحولیاتی کانفرنس ثابت ہوسکتی ہے۔ اس میں 140سے زائد سربراہان مملکت اور حکومت شرکت کریں گے، جو کہ گزشتہ سال کی سمٹ سے دو گنی تعداد ہے۔متحدہ عرب امارات کو امید ہے کہ وہ قابل تجدید توانائی کی صلاحیت کو سن 2030 تک تین گنا کرنے اور توانائی کی کارکردگی میں بہتری کی سالانہ رفتار کو دوگنا کرنے کے معاہدے کی قیادت کرے گا۔ ماہرین نے تاہم خبردار کیا ہے کہ اہم مذاکرات کے دوران اعتماد کی کمی ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہو سکتی ہے۔دنیا کے دو سب سے بڑے آلودگی پھیلانے والے ممالک امریکہ اور چین کے رہنما اس عالمی موسمیاتی کانفرنس میں شرکت نہیں کررہے ہیں۔ حالانکہ ایک غیر معمولی پیش رفت کے تحت ان دونوں ملکوں نے کانفرنس سے قبل ایک مشترکہ ماحولیاتی اعلامیہ جاری کیا ہے۔