ماحول دوست سبز سمنٹ جامعہ ملیہ اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے اساتذہ کی ایجاد

   

گوپی کریلیا
حالیہ عرصہ کے دوران دیکھا گیا کہ سستی اور اچھی پائیدار سمنٹ کی طلب بیت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ ایسے میں جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اترپردیش کی ایک فیکلٹی ٹیم (اساتذہ کی ایک ٹیم) نے سلیکا (ایک ایسا مادہ جو پتھر اور ریت میں پایا جاتا ہے) اور کوئلہ کے جلنے کے بعد جو باریک راکھ بچ جاتی ہے، اسے استعمال کرتے ہوئے ماحول دوست سمنٹ تیار کی ہے۔ یہ بہت اچھی خبر ہے۔
بہرحال کیا آپ جانتے ہیں ایک ٹن سمنٹ بنانے یا اس کی تیاری پر ہزار پاؤنڈس کاربن ڈائیآکسائیڈ خارج ہوتی ہے۔

واضح رہے کہ سمنٹ ایک ایسا مواد یا میٹیریل ہے جو ہر مقام پر بہ آسانی دستیاب ہے اور تعمیری شعبہ میں سمنٹ کے بغیر کسی بھی کام کا تصور نہیں کیا جاسکتا اور دنیا کے بیشتر عمارات کی تعمیر میں سمنٹ کا استعمال کیا گیا (اب بعض فولاد، لکڑی (چوبی) اور دیگر مواد سے تیار کی جارہی ہیں) آپ کو یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ سمنٹ سے تعمیر کی جانے والی عمارتوں کے بارے میں یہ بلاجھجک کیا جاسکتا ہے کہ یہ دنیا کا ایسا تیسرا بڑا شعبہ ہے جو کثیر مقدار میں کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتا ہے۔ کیتھم ہاوز (لندن میں واقع ایک غیرمنفعت بخش تنظیم) نے 2018ء میں ایک رپورٹ جاری کی جس میں بتایا گیا کہ عالمی سطح پر 8 ارب ٹن پلاسٹک کی پیداوار کی جو ہر دو سال میں سمنٹ کی جو پیداوار کی جاتی ہے، اس سے دگنا ہے۔ ہمیں دور جانے کی ضرورت نہیں۔ اپنے گھر یعنی ہندوستان کی ہی مثال لیتے ہیں۔ ہندوستان میں 2020ء میں 329 ملین ٹن (ایم ٹی) سمنٹ کی پیداوار ہوئی اور ایک اندازہ کے مطابق 2022 تک ہمارے ملک میں سمنٹ کی پیداوار 381 ملین ٹن تک پہنچ جائے گی۔ چونکہ سمنٹ انتہائی اہم تعمیری مواد
Building Material
ہے، اس لئے یہ ماحول پر بہت زیادہ برے اثرات مرتب کرتی ہے۔ ایسے میں ماحولیات کو زہریلے اثرات سے بچانے کیلئے آج دنیا کو سمنٹ کے ایسے متبادل کی ضرورت ہے جس کا نقصان کم اور فائدہ زیادہ ہو۔ باالفاظ دیگر ماحول دوست ہو۔

یہ دیکھتے ہوئے کہ ہندوستان میں سمنٹ بہت زیادہ تیار کی جارہی ہے اور اس کے ماحولیات پر خطرناک اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ (جے ایم آئی) دہلی اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی (AMU) اترپردیش کی انجینئرنگ فیکلٹی نے سمنٹ کا ماحول دوست ورژن تیار کیا ہے جسے بلاشبہ سمنٹ کا ایک بہترین متبادل کہا جاسکتا ہے۔ یہ ایک ایسا مواد ہے جو تعمیری عمل میں 5-20 فیصد سمنٹ کی جگہ لے گا۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کی انجینئرنگ فیکٹری کی تیار کردہ اس متبادل سمنٹ کو پیٹنٹ آفس گورنمنٹ آف آسٹریلیا سے حال ہی میں پیٹنٹ کروایا گیا جبکہ حکومت ہند سے پہلے ہی اسے پیٹنٹ کروایا جاچکا ہے۔ یہ ایک سبز چپکنے والا مادہ ہے جس کی ایجاد ڈاکٹر عبدالرحمن، محمد عارف، پروفیسر عبدالباقی، ڈاکٹر ایم شارق، انجینئر محمد جمال الحاجری اور انجینئر عامر صالح علی حسن نے کی ہے۔ڈاکٹر عبدالرحمن نے چار سال قبل نینو پر مبنی اور تبدیل کردہ Modified سمنٹ کا تجربہ اور اس کی ضابطہ کشی شروع کی۔ بیٹر انڈیا سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر رحمن کا کہنا تھا کہ وہ بدقسمتی سے سمنٹ مکانات کی تعمیر سڑکوں و قومی شاہراوں کے بچھانے پشتے وغیرہ تعمیر کرنے میں ایک اہم جز بن گئی اور آبادی میں اضافہ کے ساتھ ساتھ امکنہ (ہاؤزنگ) اور بنیادی سہولتوں (انفراسٹرکچر) کی ضرورت و طلب میں بھی بہت اضافہ ہوا۔ اسی وجہ سے سمنٹ کی پیداواری سطحوں میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ان حالات میں ہمارے پائیدار سمنٹ مرکز کے ذریعہ ہمارا مقصد سمنٹ کے استعمال کو اگر ختم بھی نہ کروایا جائے تو کم از کم اسے کم سے کم کرنا ہے۔ ڈاکٹر رحمن نے ہمیں سمنٹ کی اس نئی قسم کے فوائد اور ان لوگوں کی اس ایجاد کی اہمیت و افادیت کے بارے میں تفصیل سے واقف کروایا۔
سبز سمنٹ کے فوائد کوئلہ جلنے کے بعد جو باریک باریک راکھ بچ جاتی ہے۔ وہ سلیکان کے آکسائیڈ میں المونیم ، فولاد اور کیلشیم پر مشتمل ہوتی ہے اور یہ تعمیری کوڑا کرکٹ سے حاصل ہونے والے اجزاء ہیں اور ان اجزاء کے ذرات پھیپھڑوں میں داخل ہوسکتے ہیں جس سے دمہ، جلن، سوجن کے عارضہ پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ جسم کا جو مدافعتی نظام ہوتا ہے (یہ نظام دراصل امراض سے حفاظت کرتا ہے) وہ متاثر ہوجاتا ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ٹیم نے سب سے پہلے کوئلہ جلانے کے بعد بچ جانے والی باریک باریک راکھ کا مرکب مائیکرو سلیکا اور نینور سلیکا فیوم کا دوبارہ استعمال کیا۔ آپ کو بتادیں کہ مائیکرو سلیکا فیوم دراصل سلیکان یا فیرو سلیکان دھات کا بائی پراڈکٹ ہے۔

ڈاکٹر رحمن کے مطابق ہمارے مکسچر کا ایک بڑا حصہ ایسے پراڈکٹس پر مشتمل ہوتا ہے جو کاربن کے اخراج کا باعث بنتے تھے۔ اس ایجاد میں سمنٹ کی جگہ ہمارے تیار کردہ مرکب کی دیگر دو اجزاء ملانے کے بعد جو اثرات مرتب ہوئے، اس پر توجہ مرکوز کی گئی جس پر یہ بات سامنے آئی کہ مائیکرو اور نپنوسلیکا فیومس نے کنکریٹ کی میکانکی خصوصیات میں مزید بہتر لائی اس پر عمل سے مائیکرو اسٹرکچر میں بہتری آئی۔ ڈاکٹر رحمن نے پرزور انداز میں اس ماحول دوست سمنٹ کی پائیداری کے بارے میں بتایا کہ یہ روایتی طور پر استعمال کی جانے والی سمنٹ سے 25% زیادہ ہے، تاہم اس کا انحصار مواد کے تناسب پر ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس سمنٹ کے مزید فوائد ہیں۔ مثال کے طور پر کسی بھی روایتی کنکریٹ ساخت (عمارت) چھوٹی جگہ کی خاطر کالموں کو کم کیا جاتا ہے تو عمارت کے استحکام میں کمی آتی ہے لیکن ماحول دوست سمنٹ میں بلڈنگ کی چوڑائی (عرض البلد) کم کی جاتی ہے تب بھی استحکام حسب خواہش برقرار رہتا ہے۔ اس طرح کی خاصیت گنجان آبادی والے شہروں دہلی اور ممبئی کیلئے فائدہ بخش ہے۔ ڈاکٹر رحمن کے مطابق ہماری سمنت قدیم مکانات میں تبدیلیوں اور تزئین نو کیلئے استعمال کی جاسکتی ہے۔ یہ سمنٹ نہ صرف مکان کو مضبوط بنائے گی بلکہ زلزلوں کی صورت میں مزاحمت کے قابل بھی بنائے گی۔ اس سمنٹ کے استعمال سے عمارت میں چھوٹے بڑے شگاف پڑنے کے کوئی امکانات باقی نہیں رہتے۔
اب ڈاکٹر رحمن اور ان کی ٹیم جنوبی آفریقہ سے پیٹننٹ کے حصول کی منتظر ہے جس کے بعد وہ اپنی ماحول دوست سمنٹ کی تجارتی بنیادوں پر فروخت کیلئے، تعمیراتی صنعت سے رجوع ہوں گے۔