مادھوی لتا حیدرآباد میں اجنبی، بی جے پی اور آر ایس ایس سے تعاون نہ ملنے کی شکایت

,

   

( لوک سبھا حلقہ حیدرآباد کی عجیب سیاست )
سنگھ پریوار کوکمزور امیدوار پر حیرت، راجہ سنگھ انتخابی مہم سے دور، بی جے پی کیڈر کشن ریڈی سے ناراض

حیدرآباد۔/14 اپریل، ( سیاست نیوز) بی جے پی نے گریٹر حیدرآباد کے لوک سبھا حلقہ جات حیدرآباد، سکندرآباد اور ملکاجگری پر توجہ مرکوز کی ہے تاکہ شہری علاقوں میں نریندر مودی کے نام پر ووٹ حاصل کئے جائیں۔ پارٹی نے حیدرآباد لوک سبھا حلقہ سے مادھوی لتا کو امیدوار بنایا ہے اور اُمید کی جارہی تھی کہ پارٹی اور سنگھ پریوار کی مکمل تائید کے ساتھ مادھوی لتا بہتر مظاہرہ کے موقف رہیں گی لیکن خود امیدوار کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ غیرسیاسی بیاک گراؤنڈ کی حامل مادھوی لتا حیدرآباد کے ایک کارپوریٹ ہاسپٹل کی صدرنشین ہیں اور وہ مذہبی تقاریر کیلئے شہرت رکھتی ہیں۔ بی جے پی نے خاتون امیدوار کا انتخاب کرتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ گریٹر حیدرآباد میں خواتین کی تائید حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ مادھوی لتا کے امیدوار بنائے جانے کے اعلان کے ساتھ ہی بی جے پی حلقوں میں سناٹا طاری ہوگیا ہے۔ مادھوی لتا کے نام کی سفارش کس نے کی تھی اس بارے میں صورتحال غیر واضح ہے لیکن بی جے پی کے حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے قائدین کی مانیں تو ہائی کمان نے مقامی سطح پر مشورہ کئے بغیر ہی مادھوی لتا کے نام کا اعلان کردیا۔ دیگر حلقہ جات کے بارے میں مضبوط امیدواروں کا پتہ چلانے کیلئے سروے کا اہتمام کیا گیا تھا لیکن حیدرآباد لوک سبھا حلقہ کے بارے میں مقامی دعویداروں کو نظرانداز کرتے ہوئے غیر معروف خاتون کو امیدوار بنائے جانے پر پارٹی کیڈر سخت ناراض ہے۔ مادھوی لتا نے انتخابی مہم کا باقاعدہ آغاز کردیا ہے لیکن وہ صرف الیکٹرانک میڈیا اور سوشیل میڈیا تک محدود ہوچکی ہیں۔ کارپوریٹ ہاسپٹل کے میڈیا ڈپارٹمنٹ کا استعمال کرتے ہوئے مختلف اخبارات میں ان کے انٹرویوز شائع کئے گئے اور انہیں قومی ٹی وی چینلس پر بھی پیش کیا گیا۔ مادھوی لتا کو ’ آپ کی عدالت‘ پروگرام کے بعد عوام میں کسی قدر مقبولیت حاصل ہوئی لیکن جہاں تک انتخابی مہم کا سوال ہے بی جے پی کیڈر دور دور تک دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ بی جے پی کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس نے بھی مادھوی لتا کے نام کی مخالفت کی ہے لہذا آر ایس ایس کیڈر بھی لوک سبھا حلقہ حیدرآباد میں ابھی تک متحرک نہیں ہوا ہے۔ مادھوی لتا کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے عدم تعاون کے نتیجہ میں انتخابی مہم میں دشواری ہورہی ہے۔ مادھوی لتا بظاہر تو بی جے پی امیدوار ہیں لیکن انہیں حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے پارٹی قائدین کا کوئی تعاون حاصل نہیں ہے جس کے نتیجہ میں وہ توقع کے مطابق مہم چلانے میں ناکام دکھائی دے رہی ہیں۔ ان کا حال حیدرآباد لوک سبھا حلقہ میں ایک اجنبی کی طرح ہے۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ بی جے پی نے اگرچہ 10 لوک سبھا حلقوں پر کامیابی کا نشانہ مقرر کیا ہے لیکن اس فہرست میں حیدرآباد شامل نہیں ہے۔ حیدرآباد میں ایک کارپوریٹ گھرانے کی غیر سیاسی خاتون کو امیدوار کے طور پر پیش کرنا سیاسی حلقوں میں بحث کا موضوع بن چکا ہے۔ اس بات کی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ بی جے پی کی اعلیٰ قیادت کو حیدرآباد لوک سبھا حلقہ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ بی جے پی حیدرآباد لوک سبھا حلقہ کے علاقوں میں اگرچہ قابل لحاظ مضبوط موقف رکھتی ہے لیکن لوک سبھا نشست پر قبضہ کرنے کیلئے حکمت عملی تیار کرنے راضی نہیں ہے۔ مقامی بی جے پی اور آر ایس ایس قائدین کا ماننا ہے کہ پارٹی کے بعض قائدین نے حیدرآباد سے صدر مجلس اسد اویسی کی کامیابی کو یقینی بنانے کیلئے کمزور امیدوار کی ہائی کمان سے سفارش کی ہے۔ جس طرح کانگریس پارٹی نے اپنی حلیف جماعت کو مدد دینے کیلئے رسمی طور پر مقابلہ کا فیصلہ کیا ہے اسی طرح بی جے پی نے بھی غیر معلنہ طور پر کمزور امیدوار کے ذریعہ اسی طرح کا پیام کارکنوں میں دینے کی کوشش کی ہے۔ مادھوی لتا اپنے چند ایک حامیوں کے ساتھ مختلف علاقوں کا دورہ کررہی ہیں لیکن بی جے پی اور آر ایس ایس کیڈر کی کمی کے نتیجہ میں انہیں عوام سے کوئی غیرمعمولی تائید کا حاصل ہونا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ حیدرآباد کے واحد بی جے پی رکن اسمبلی راجہ سنگھ نے کھل کر مادھوی لتا کو امیدوار بنائے جانے کی مخالفت کی اور نام کے اعلان کے بعد سے وہ سیاسی سرگرمیوں سے خود کو دور کرچکے ہیں۔ گوشہ محل اسمبلی حلقہ دراصل لوک سبھا حلقہ حیدرآباد کے تحت آتا ہے لیکن وہاں کے بی جے پی رکن اسمبلی مادھوی لتا کی انتخابی مہم میں حصہ لینے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ خود مادھوی لتا نے ٹی وی شو میں کہا کہ خاتون کو ٹکٹ دیئے جانے سے راجہ سنگھ ناراض ہیں۔ راجہ سنگھ اور ان کے حامیوں کی شکایت ہے کہ ریاستی صدر جی کشن ریڈی نے سکندرآباد سے اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کیلئے حیدرآباد سے کمزور امیدوار میدان میں اُتارا ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کیڈر کی انتخابی مہم سے دوری کئی شبہات کو جنم دے رہی ہے اور پارٹی کے سینئر قائدین اس بارے میں کسی بھی تبصرہ سے انکار کررہے ہیں۔ انتخابی اعلامیہ کی اجرائی کے بعد 18 اپریل کو حقیقی معنوں میں مہم کا آغاز ہوگا اور اس وقت اندازہ ہوگا کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کی دوری کے نتیجہ میں مادھوی لتا کس حد تک کامیاب انتخابی مہم چلا پائیں گی۔ اطلاعات کے مطابق آر ایس ایس نے حیدرآباد سے اسد اویسی کو سخت مقابلہ دینے کیلئے بعض نام تجویز کئے تھے جن میں بعض قومی قائدین کے نام بھی شامل تھے لیکن ہائی کمان نے اس مسئلہ پر مشاورت کے بغیر ہی اچانک مادھوی لتا کے نام کا اعلان کردیا۔ جیسے جیسے انتخابی مہم آگے بڑھے گی بی جے پی امیدوار کے انتخاب پر درپردہ حقائق منظر عام پر آئیں گے۔1