ماں کی تربیت بچوں کی زندگی جنت بھی بنا سکتی ہے

   

محمد مصطفی علی سروری
قارئین گذشتہ ہفتے کے دوران میڈیا میں کھیل کود کے میدان سے دو بڑی خبریں چھائی ہوئی تھیں۔ ایک تو کرکٹ کے ورلڈ کپ میں انگلینڈ کی دلچسپ جیت تھی۔ دوسری خبر ومبلڈن ویمنس سنگلز زمرے میں رومانیہ سے تعلق رکھنے والی سمونا ہیلپ کی جیت سے متعلق تھی۔
رومانیہ کی اس خاتون کھلاڑی نے امریکہ کی سیرینا ولیمس کو فائنل میں شکست دے کر ٹینس کے کئی شائقین کو حیرت زدہ کردیا۔ ومبلڈن ٹرافی جیتنے کے بعد سمونا نے کئی انٹرویوز دیئے۔ سمونا نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’’میری ماں کا خواب تھا، اگر میں ٹینس کے میدان میں کچھ کرنا چاہتی ہوں تو مجھے ومبلڈن فائنل میچ کھیلنا ہوگا اور آج میں نے وہ کام کردکھایا۔‘‘
قارئین ماں کی تربیت کیسے رنگ دکھاتی ہے۔ سمونا ہیلپ کی کامیابی اس کا ایک ثبوت ہے۔ 27 برس کی اس خاتون کھلاڑی کی ماں نے کیسے اپنی لڑکی کی تربیت کی کہ وہ جس کسی بھی فیلڈ کا انتخاب کرے اس کی مرضی ہے لیکن جس میدان میں بھی وہ قدم رکھے وہاں پر سب سے اعلیٰ ترین مقام حاصل کرنا ضروری ہے۔چونکہ سمونا ہیلپ نے ٹینس کھیلنے کا فیصلہ کیا تھا اس لیے اس کی ماں نے اس سے کہا کہ وہ ومبلڈن کو اپنی منزل بنائے اور جب سمونا ہیلپ نے کامیابی حاصل کی تو اس وقت اس کی ماں تانیہ ہیلپ بھی گرائونڈ پر موجود تھی۔ماں کی تربیت نہ صرف بچوں کی زندگی بدل ڈالتی ہے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے مضبوط بنیاد کھڑا کردیتی ہے۔
گذشتہ ہفتے کے کالم میں ناگپور کے پیارے خان کے بارے میں لکھا گیا تھا۔ جی ہاں وہی پیارے خان جنہوں نے آٹو چلاکر اپنی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ آج کروڑوں کی مالیتی کمپنی کے مالک ہیں۔ ان کی ماں رئیسہ خاتون کی زندگی سے بھی بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔ رئیسہ خاتون نے اپنے بچوں کی تعلیم کے متعلق فکر تو کی مگر انہیں دسویں سے آگے نہیں پڑھا سکی۔ آج رئیسہ خاتون کے بیٹے پیارے خان نے کروڑ ہا روپیوں کا اپنا بزنس ایمپائر کھڑا کرلیا۔ آٹو کی جگہ مرسیڈیز بنز ان کی سواری بن گئی اور پیارے خان کی ماں کا کیا ہوا وہ آج کل کیا کرتی ہیں قارئین یہ جاننا بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔
پیارے خان کی ٹرانسپورٹ کمپنی کا کاروبار سالانہ 400 کروڑ سے تجاوز کرگیا ہے۔ وہ خود آٹو کی جگہ مرسیڈیز Benz گاڑی استعمال کرتا ہے اور جس منیجر نے اس کو سب سے پہلے ٹرک لینے کے لیے قرضہ دیا تھا وہ منیجر خود آج 30 لاکھ سالانہ کی تنخواہ پر پیارے خان کی کمپنی میں کام کررہا ہے۔ اب ذرا اندازہ لگایئے کہ پیارے خان کی ماں رئیسہ خاتون کیا کر رہی ہوں گی؟ ہاتھوں میں سونے کے کڑے اور چوڑیاں پہن کر کسی بڑی گاڑی میں گھومنے کے علاوہ اور کیا کام ہوسکتا ہے۔ لیکن قارئین تعجب ہوتا ہے رئیسہ خاتون کی فطرت اور تجارت پر اللہ کی یہ بندی آج بھی ناگپور میں ایک کرانہ کی دوکان پر بیٹھ کر کام کرتی ہیں۔
جی ہاں کروڑ پتی پیارے خان کی ماں آج بھی محنت کر رہی ہیں۔ کیا پیارے خان نے دولت حاصل کر کے اپنی ہی اس ماں کو بھلادیا جس نے اس کو سب سے پہلے کمانا سکھایا تھا؟ کیا پیارے خان اپنی ماں کی روپیوں پیسوں سے مدد نہیں کرتا؟ پیارے خاں دوسروں کو نوکری دینے کی بات کرتا ہے اور خود اپنی سگی ماں کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا ۔ اگر آپ حضرات کے دل میں اس طرح کے خیالات آرہے ہیں تو براہ کرم ان خیالات کو اپنے دل سے فوری نکال پھینکئے۔ کیونکہ پیارے خان اور اس کے دو بھائیوں نے تو اپنی ماں رئیسہ خاتون سے کہہ دیا ہے کہ وہ کچھ محنت نہ کرے بس گھر پر بیٹھ کر آرام کرے اور کیا چاہیے بتلادے۔ اس کی مدد کردی جائے گی مگر اپنے سر پر اوڑھنی پہن کر یہ ضعیف خاتون آج بھی کرانہ کی دوکان پر بیٹھتی ہے اور جب ناگپور ٹوڈے ٹی وی چیانل کا نمائندہ اس خاتون سے پوچھتا ہے کہ وہ اپنے بیٹوں کی اتنی ساری دولت رکھنے کے باوجود کرانہ کی دوکان پر کیوں بیٹھتی ہیں تو رئیسہ خاتون کہتی ہیں کہ میری طبیعت نہیں چاہتی کہ میں خالی بیٹھوں۔ اب جیسے بھی اور جتنا بھی اس کرانہ دوکان پر کاروبار ہوتا ہے میں چاہتی ہوں کروں۔ انہوں نے کہا کہ سوال یہ نہیں ہے کہ میں کتنا کاروبار کرتی ہوں۔ دو ہزار ہو یا پانچ ہزار یہ کرانہ کی دوکان جس بچے کی ہے میں اس کی مدد کرنا چاہتی ہوں۔ میرے بچے تو مجھے بولتے رہتے ہیں کہ آرام سے گھر پر بیٹھو۔
پیارے خان کی ترقی پر رئیسہ خاتون کہتی ہیں کہ ہماری تربیت تھی کہ میرے بچے نہ سپاری کو ہاتھ لگائے اور نہ چائے کے عادی بنے۔ بچوں کی اچھی دیکھ بھال، میری ذمہ داری تھی، بس میں اپنے تینوں بچوں کو اچھا بڑا کری۔ ماں باپ کے لیے اور کیا دولت چاہیے۔ کاروبار کر کے کمانے کے باوجود بری عادتوں سے بچ کر رہنا اور کیا اچھا ہوسکتا ہے۔
قارئین جب ماں چاہتی ہے تو اپنا بچوں کا مستقبل سنوار سکتی ہے اور ماں سے جب غفلت ہوتی ہے تو اس کی قیمت نسلوں کو چکانی پڑتی ہے۔
رئیسہ خاتون نے ایک بڑے پتے کی بات کہی کہ میرے بچے محنت کرنے اور کاروبار کے میدان میں ہونے کے باوجود نہ تو سپاری کھاتے ہیں اور نہ چائے پیتے ہیں۔ اس سے اچھی بات کیا ہوسکتی ہے۔ یعنی بری عادتوں سے بچ کر رہنا اچھی زندگی کی علامات ہیں۔ رئیسہ خاتون کے بیٹے پیارے خان نے دسویں تک بھی تعلیم حاصل نہیں کی تھی لیکن پیارے خان کو ٹیلی ویژن والے، کالج والے اور دیگر لوگ اپنے ہاں بلاکر اس کی ترقی کا راز پوچھ رہے ہیں۔ پیارے خاں نے اپنے ایسے ہی لکچر کے دوران بتلایا کہ کسی کو اپنی زندگی میں کچھ پانا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ کچھ کرے۔ خاص طور پر نوجوانوں کے لیے پیارے خاں نے کہا کہ وہ کام تو ضرور کرنا جس کام میں دل نہ لگے۔ اس نے اس بات کی وضاحت کی کہ اس کو بھی آٹو چلانا اچھا نہیں لگتا تھا لیکن اپنا دل نہ لگنے کے باوجود وہ آٹو چلاتا تھا تاکہ وہ روزانہ 200 روپئے تو کماسکے۔ تیسرا سبق جو پیارے خان نے نوجوانوں کو بتلایا کہ ڈر کے آگے درد ہوتا ہے۔ اس لیے ناکامی سے ڈرنا ہی نہیں چاہیے۔
یہ تو زندگی کے وہ سبق ہیں جو پیارے خاں نے اپنی ماں سے ہی سیکھے ہیں اور جہاں تک دسویں پاس کرنے کی بات ہے، سال 2013ء کی بات ہے جب گورنمنٹ کی طرف سے اشتہار آیا کہ نئے پٹرول پمپ شروع کرنے درخواستیں دی جاسکتی ہے مگر اس کے لیے درخواست گذار کا دسویں پاس ہونا ضروری ہے تو پیارے خاں نے اپنا خود کا پٹرول پمپ کھولنے کے لیے دسویں کا امتحان لکھنے کا فیصلہ کیا۔ ایک بار دسویں کا امتحان لکھا، فیل ہوگیا۔ دوسری بار امتحان لکھا فیل ہوگیا۔ پیارے خان کی ہمت اور لگن کی داد دیجئے گا کہ اس نے جب تیسری مرتبہ دسویں کا امتحان لکھا تب کہیں جاکر کامیابی ملی اور یوں پیارے خان نے اپنا خود کا پٹرول پمپ کھولنے میں بھی کامیابی حاصل کی اور اب تعلیم سے اپنا رشتہ دوبارہ استوار کرتے ہوئے بارہویں کا امتحان بھی پاس کرلیا ہے۔
تعلیم کے بغیر تجارت میں کامیابی کا راز کیا ہے اس سوال کے جواب میں پیارے خاں نے بتلایا کہ بزنس میں جھوٹ مت بولو۔ خوب ترقی ملے گی۔ ان کے مطابق میرے جیسے ہزاروں، لاکھوں لوگ ہیں جو خوب دولت کمانا چاہتے ہیں مگر میرے مالک کا مجھ پر کرم ہے۔ مجھے کامیابی ملی۔ وہ کونسی عادت ہے جو پیارے خان کی زندگی کو آسان بناتی ہے پیارے خان نے اس سوال کا بڑا پیارا جواب دیا کہ میں بغیر نماز پڑھے کے آفس نہیں آتا ہوں اور نہ میرا دن شروع ہوتا ہے۔
قارئین پیارے خاں تو خیر سے اب 40 سال کی عمر میں تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ قابل مبارکباد ہے پیارے خاں کی ماں جس نے پیارے خان کو بتلایا کہ جھوٹ مت بولو۔ اگرچہ یہ بچپن کا پڑھایا ہوا سبق تھا لیکن پیارے خان نے اپنے کاروبار میں بھی اسی سبق پر عمل کر کے کامیابی حاصل کی۔ انسان محنت کرتا ہے اور کامیابی خدا کی ذات دیتی ہے۔ تبھی تو پیارے خان کہتا ہے کہ میرے جیسے اور بھی بے شمار لوگ ہیں لیکن میں جو بھی کام میں ہاتھ ڈالتا ہوں تو اللہ کا فضل و کرم سے کامیابی ملتی ہے۔
کیا ہماری قوم کے ہر ماں باپ اپنے بچوں کے حوالے سے اس بات کو یقینی بناسکتے ہیں کہ ہمارے بچے بڑے ہوکر بھی ان شاء اللہ جھوٹ نہیں بولیں گے۔ کاروبار کی لائن میں ہونے کے باوجود غلط عادات کا شکار نہیں بنیں گے۔ بس قوم کی ترقی کے لیے اور کیا چاہیے۔ خداوند قدوس کا فضل و کرم ہی کافی ہے۔ کیا ہم نے اپنے بچوں کو اچھی عادات اور اطوار کی تربیت دی یا انہیں صرف اسکول، کالج جانا سکھایا تاکہ وہ خوب کماسکیں؟ ذرا سوچیئے گا، پیارے خاں کے بارے میں نہیں خود اپنے اور اپنے بچوں کے بارے میں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی اولاد کی نیک تربیت کرنے والا بنا اور اس کام میں ہماری مدد فرما۔
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
sarwari829@yahoo.com