ماہ رجب المرجب بابرکت مہینہ

   

ماہِ رجب بہت ہی مبارک مہینہ ہے، ۔ ماہِ رجب اُن چار بابرکت مہینوں میں سے ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات بناتے وقت ہی سے بڑی عظمت، احترام اور فضیلت عطا فرمائی ہے، اللہ تعالیٰ نے سال کے بارہ مہینوں میں سے چار مہینوں کو عظمت اور حرمت عطا فرمائی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ سورۃ التوبہ میں فرماتے ہیں:’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ مہینے ہے، جو اللہ کی کتاب (یعنی لوحِ محفوظ) کے مطابق اُس دن سے نافذ چلی آتی ہے جس دن اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا، ان بارہ مہینوں میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں۔ یہی دین (کا) سیدھا (تقاضا) ہے۔ ‘‘اس آیتِ مبارکہ سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ قمری اسلامی سال کے بارہ مہینے اللہ تعالیٰ نے خود مقرر فرمائے ہیں، جس سے قمری اسلامی سال اور اس کے مہینوں کی قدر وقیمت اور اہمیت بخوبی واضح ہوتی ہے۔ اسی طرح اس سے معلوم ہوا کہ ان بارہ مہینوں میں سے چار مہینے حرمت، عظمت اور احترام والے ہیں، ان کو ’’اَشْہُرُ الْحُرُم‘‘، ’’حرمت والے مہینے‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ مضمون متعدد احادیث میں آیا ہے جس سے ان چار مہینوں کی تعیین بھی واضح ہوجاتی ہے، جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺنے حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا کہ:زمانہ اب اپنی اُسی ہیئت اور شکل میں واپس آگیا ہے جو اُس وقت تھی جب اللہ نے آسمان اور زمین کو پیدا فرمایا تھا (اس ارشاد سے مشرکین کے ایک غلط نظریے اور طرزِ عمل کی تردید مقصود ہے، جس کا ذکر اسی سورتِ توبہ آیت نمبر:۳۷ میں موجود ہے) سال بارہ مہینوں کا ہوتا ہے، ان میں سے چار مہینے حُرمت (عظمت اور احترام) والے ہیں، تین تو مسلسل ہیں یعنی: ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم، اور چوتھا مہینہ رجب کا ہے جو کہ جُمادی الثانیہ اور شعبان کے درمیان ہے۔‘‘ ان چارمہینوں (یعنی ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب)کی عزت وعظمت اور احترام کی بدولت ان میں ادا کی جانے والی عبادات کے اجر وثواب میں اضافہ ہوتا ہے، جبکہ گناہوں کے وبال اور عذاب میں بھی زیادتی ہوتی ہے۔اس کا تقاضا یہ ہے کہ ان مہینوں میں عبادات کی ادائیگی اور گناہوں سے بچنے کا بخوبی اہتمام کرنا چاہیے۔ حضرات اہلِ علم فرماتے ہیں کہ جو شخص ان چار مہینوں میں عبادت کا اہتمام کرتا ہے، اس کو سال کے باقی مہینوں میں بھی عبادات کی توفیق ہوجاتی ہے، اور جو شخص ان مہینوں میں گناہوں سے بچنے کی بھرپور کوشش کرتاہے تو سال کے باقی مہینوں میں بھی اسے گناہوں سے بچنے کی توفیق ہوتی ہے۔ ان چار حرمت اور عظمت والے مہینوں میں سے چوں کہ رجب کا مہینہ بھی ہے، اس لیے اس کی عزت واحترام کا بھی یہی تقاضا ہے کہ اس مہینے میں عبادات کی طرف بھرپور توجہ دی جائے اور گناہوں سے بچنے کا خصوصی اہتمام کیا جائے۔
ماہِ رجب میں عبادات کے اہتمام کی ترغیب سے اس ماہ میں روزے رکھنے کی بھی فضیلت معلوم ہوجاتی ہے، کیوں کہ یہ بھی عمومی عبادات میں سے ہے۔حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابیؓ سے فرمایا کہ: ’’ماہِ رمضان کے روزے رکھو اور ہر مہینے میں ایک دن کا روزہ رکھا کرو۔ اس صحابیؓ نے عرض کیا کہ میرے لیے روزوں میں مزید اضافہ فرمائیے، کیوں کہ مجھ میں روزے رکھنے کی طاقت ہے، تو حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:ہر مہینے میں دو دن روزہ رکھ لیا کرو۔اس صحابیؓ نے پھر عرض کیا کہ میرے لیے روزوں میں مزید اضافہ فرمائیے، تو حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ہر مہینے میں تین دن روزہ رکھ لیا کرو۔ اس صحابیؓ نے پھر عرض کیا کہ: میرے لیے روزوں میں مزید اضافہ فرمائیے، تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ’’اَشْہُرُ الْحُرُم‘‘، ’’حرمت والے مہینے‘‘ میں روزہ رکھ لیا کرو ) حضرت سالم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ’’اَشْہُرُ الْحُرُم‘‘ ، ’’حرمت والے مہینے‘‘ میں روزے رکھا کرتے تھے۔ حضرت یونس رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ ’’اَشْہُرُ الْحُرُم‘‘ ، ’’حرمت والے مہینے‘‘ میں روزے رکھا کرتے تھے۔ چوں کہ ’’اَشْہُرُ الْحُرُم‘‘ ، ’’حرمت والے مہینے‘‘ میں ماہِ رجب بھی داخل ہے، اس لیے ان روایات سے ماہِ رجب میں بھی روزے رکھنے کی ترغیب معلوم ہوجاتی ہے۔:حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم (ماہِ رجب میں) روزے رکھا کرتے تھے، حتیٰ کہ ہم سمجھتے کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم ناغہ نہیں فرمائیں گے، اور (ماہِ رجب میں ) روزے نہ رکھتے، حتیٰ کہ ہم سمجھتے کہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم روزے نہیں رکھیں گے۔(صحیح مسلم) ماقبل کی تفصیل سے درج ذیل باتیں معلوم ہوجاتی ہیں:۱:- ماہِ رجب چوں کہ ’’اَشْہُرُ الْحُرُم‘‘ یعنی حرمت والے مہینوں میں سے ہے، ا س لیے اس میں دیگر عبادات کی طرح روزے رکھنے کی بھی فضیلت ہے۔۲:- ماہِ رجب ’’اَشْہُرُ الْحُرُم‘‘ میں سے ہے اور’’اَشْہُرُ الْحُرُم‘‘ میں روزے رکھنے کی ترغیب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔۳:- ’’اَشْہُرُ الْحُرُم‘‘ میں روزے رکھنے کا ثبوت بعض صحابہ کرامؓ اور بعض تابعین عظامؒ سے بھی ہے۔۴:- ماہِ رجب میں روزے رکھنے کا ثبوت حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ہے۔معلوم ہوا کہ ماہِ رجب میں روزے رکھنا ممنوع یا مکروہ نہیں، بلکہ روایات سے ثابت ہونے اور حرمت والا مہینہ ہونے کی وجہ سے مستحب ہے، اس لیے رجب کے پورے مہینے میں کسی بھی دن روزہ رکھا جاسکتا ہے، عمومی طور پر ہر دن کے روزے کی فضیلت ہے، چنانچہ ہر شخص اپنی وسعت و طاقت کے مطابق پورے مہینے میں جتنے بھی چاہے روزے رکھ سکتا ہے۔ یہاں یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ روزے رکھنے کے لیے رجب کا پورا مہینہ ہی فضیلت والا ہے،