مایہ ناز ادیب و مفکر حضرت مولانا سید محمد واضح رشید ندویؒ

   

ڈاکٹر محمد فضیل ندوی
زندگی کے اس بھاگ دوڑ میں اچانک ایسے حالات اور واقعات پیش آجاتے ہیں جو ہمارے خیالات و تصورات سے بالاتر ہوتے ہیں اور جس کے وقوع سے ہمارے اندر اضطراب و بے چینی کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے ۔ مگر اللہ کی مرضی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ عالم اسلام کی عظیم شخصیت حضرت مولانا سید محمد واضح رشید ندویؒ معتمد تعلیمات دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو ، اچانک اس دارِ فانی سے رحلت فرما گئے ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
موت اس دنیا کی ایک ایسی اٹل حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن موت ایسی ہو کہ جینے والے رشک کریں اور گزرنے والا ا پنے پیچھے انمٹ نقوش چھور جائے اور اپنے کام و جذبہ سے ہر ایک کو اشکبار کرجائے تو ایسی موت قابل رشک ہوتی ہے ۔
مورخہ16 جنوری 2019 ء کی صبح ابھی نمودار نہیں ہوئی تھی اور نماز فجر کا وقت قریب سے قریب تر ہوتا جارہا تھا کہ اسی درمیان حصرت مولانا سید محمد واضح رشید ندویؒ نے داعی اجل کو لبیک کہا اور اپنی جان جاں آفریں کے سپرد کردی ۔ مرحوم دارالعلوم ندوۃ العلماء کے موقر استاد، معتمد تعلیمات اور عربی میں شائع ہونے والے عربی مجلہ ’’الرائد‘‘ کے ایڈیٹر تھے۔
آپ کی ولادت تکیہ کلاں شاہ علم اللہ رائے بریلی میں ہوئی ، آپ نے دارالعلوم ندوۃ العلماء سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد علیگڑھ یونیورسٹی سے انگریزی میں گریجویشن کیا ۔ گریجویشن کے بعد آل انڈیا ریڈیو میں 1953 ء سے 1973 ء تک خدمات انجام دی ۔ اس کے بعد ندوۃ واپس آگئے اور ا پنے درس و تدریس سے ہزاروں لاکھوں تشنگاں علوم کو بہرہ ور فرماتے رہے ۔ اللہ تعالیٰ نے مرحوم کو عربی زبان و ادب میں خاص ملکہ عطا فرمایا تھا ۔ چنانچہ درس و تدریس کے علاوہ کلیۃ اللغۃ العربیۃ کے عمید بھی رہے اور ’’الرائد‘‘ کے ایڈیٹر بھی ۔ تصوف و سلوک میں حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کے خلیفہ تھے ۔ آپ ہمیشہ غور و فکر میں مستغرق رہتے تھے ۔ اگر ایک طرف ملت اسلامیہ ہندیہ کے مسائل پر گہری نظر رکھتے تو دوسری جانب عالم اسلام کے مسلمانوں کیلئے ہر لمحہ بے چین و مضطرب رہتے اور اپنے فکری مضامین کے ذریعہ قوم و ملت کے سلگتے ہوئے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے ۔ صیہونیت ، صلیبیت ، جیسے موضوعات پر پر مغز محاضرات دیا کرتے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ عالم دین ، بے باک ، صحافی ، داعی اسلام مایہ ناز ادیب ، مفکر و دانشور تھے ۔ نیز کئی اداروں کے سربراہ سرپرست بھی تھے۔ اس کے علاوہ اردو و عربی کتابوں کے مصنف تھے ۔ آپ کی اردو تصانیف میں سے چند اہم کتابیں یہ ہیں۔
(1) محسن انسانیت ﷺ (2) مسئلہ فلسطین (3) اسلام مکمل نظام زندگی ، اند یشے تقاضے اور حل (4) سلطان ٹیپو شہید ، ایک تاریخ ساز قائد وغیرہ۔عربی میں بھی آپ نے کئی کتابیں تحریر فرمائی جن میں سے چند کے نام قابل ذکر ہیں ۔
(1) تاریخ الادب العربی ، العصر الجاہلی (2) الدعوۃ الاسلامیۃ و مناھجہافی الہند (3) الامام احمد بن عرفان الشہید (4) مصادر الادب العربی (5) الشیخ ابوالحسن ، قائد و حکمیا
آپ نے عربی صحافت کو جو بلندی عطا فرمائی وہ تمام اہل قلم کیلئے قابل رشک ہے، جب جب مغربی طاقتوں نے سر چڑھ کر اسلام کے خلاف پروپگنڈہ کیا تو ایسے حالات میں مولانا کا قلم کبھی خاموش نہیں رہا ۔ آپ نے صاف ستھرے انداز میں اس کا جواب دیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم کے ساتھ حلم بھی عطا فرمایا تھا تواضع ، خاکساری ، انکساری ، سادگی ، نرم خوئی اور جو بھی کمالات و صفات ہوسکتے ہیں ، ان تمام کمالات و صفات سے آپ متصف تھے ۔ اللہ تعالیٰ آپ کے درجات کو بلند فرمائے ۔ آمین
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا