متحد رہیے اور بی جے پی کے دانت کھٹے کر دیجیے

   

ظفر آغا
ایک اور سال ختم ہونے کو آیا۔ چہار سو گھنگھور کالی گھٹاؤں کا راج۔ کہیں ایک امید کی کرن نہیں۔ امید تو جانے دیجیے، اگلا برس پچھلے سال سے بھی کچھ اور مصائب لے کر آنے کے آثار ہیں۔ جی ہاں، 2024 میں سیاست کا رنگ اور بگڑ سکتا ہے۔ دسمبر 2023 میں جو صوبائی چناؤ کے نتائج آئے، وہ انتہائی مایوس کن تھے۔ ان سے دو سیاسی حقائق کھل کر ابھرے۔ اول، ہندی بولنے والی ریاستیں اترپردیش، بہار، دہلی، ہریانہ، مدھیہ پردیش اور راجستھان میں بی جے پی کا پرچم شد و مد سے لہرا رہا ہے۔ ساتھ ہی مہاراشٹر اور گجرات تو پہلے سے ہی بی جے پی کے قلعے رہے ہیں۔ دوئم، دکن ہندوستان کی چار بانیوں نے بی جے پی سے منھ موڑ لیا۔ پانچ ماہ بعد جو لوک سبھا چناؤ ہونے والے ہیں، دیش ان میں کدھر جائے گا حتمی طور پر طے نہیں۔ کیونکہ لوک سبھا چناؤ کا کچھ اپنا الگ ہی طرہ ہوتا ہے۔
واضح ہے کہ آثار کچھ اب اچھے نہیں۔ اس پس منظر میں مایوسی کے سوا کوئی اور امید کیسے کیجیے۔ لیکن امید ترک کر دینا انسان کا مزاج نہیں۔ کچھ باتیں امید افزا بھی ہیں۔ مثلاً اپوزیشن پارٹیاں بی جے پی کے خلاف الیکشن لڑنے کو کوشاں ہیں۔ ان متحد پارٹیوں نے خود کو انڈیا الائنس کا نام بھی دے دیا ہے۔ حال میں ہی وہ تمام جماعتیں دہلی میں اکٹھا ہوئیں اور بی جے پی کے خلاف متحد رہ کر لوک سبھا چناؤ لڑنے کا عزم دہرایا۔ سیاسی ماہرین کا قیاس ہے کہ اگر یہ جماعتیں متحد ہو کر چناؤ لڑتی ہیں تو وہ بی جے پی کے دانت کھٹے کر سکتی ہیں۔ شرط یہ ہے کہ سب متحد رہیں اور پورے دل و جان سے بی جے پی کا مقابلہ کریں۔پچھلے ہفتے اس گروپ کی دہلی میں جو میٹنگ ہوئی اس میں کانگریس صدر کھڑگے کا نام وزارت عظمیٰ کے لیے زیر بحث رہا۔ ممتا بنرجی اور اروند کجریوال نے کھڑگے کا نام پیش کیا۔ دلیل یہ تھی کہ کھڑگے پہلے دلت لیڈر ہوں گے جو ہندوستان کے وزیر اعظم بن سکتے ہیں۔ نیک خیال ہے، مگر ابھی سے ناموں پر بحث و مباحثے پر کچھ لوگوں کے دلوں میں کھٹاس پیدا ہو گئی۔ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے باقاعدہ اس بات پر اعتراض ظاہر کیا اور اخباروں کے ذریعہ اپنی ناراضگی منظر عام تک پہنچا دی۔
نتیش کی ناراضگی سے ظاہر ہے کہ اپوزیشن اگر وزیر اعظم کے نمائندہ کا اعلان کرتی ہے تو الائنس میں پھوٹ پر سکتی ہے۔ بی جے پی یہی چاہتی ہے۔ اپوزیشن کو ہر حال میں متحد رہ کر بی جے پی کی اس امید کو کامیاب نہیں ہونے دینا چاہیے۔ بی جے پی مخالف ووٹر صرف اتنا ہی چاہتا ہے کہ اپوزیشن متحد رہے۔ اگر ایسا رہا تو کچھ امید ہے ورنہ گھپ اندھیرا تو ہے ہی۔