مجتبیٰ حسین کا قابل قدر و تقلید اقدام

   

ڈاکٹر مرزا غلام حسین بیگ
ایسی سرخیاں اور ایسے اعلانات پڑھ کر مجھ جیسوں کے مریض قلوب و اذہان صحت یاب ہوجاتے ہیں کہ ماشاء اللہ اب بھی ہم میں ایسے جیالے ہیں جنہیں اُمت مسلمہ پرآئی ہوئی آنچ قطعی گوارہ نہیں اور وہ اٹھتے ہوئے شعلوں سے نبردآزما ہونے کیلئے آن واحد میںآمادہ ہوکر بڑے سے بڑے اعزاز کو نذرِآتش کردیتے ہیں۔مجتبیٰ حسین صاحب جیسے جہاں دیدہ بزرگ ادیب اور بین الاقوامی سطح کے مزاح نگار کا موجودہ اقدام بے حس و حرکت اجسام پر تازیانہ کا کام کرجائے تو ہم حیدرآبادی مسلمان ہمیشہ کیلئے سرخروئی کے ساتھ جینے کے لائق ہوجائیں ویسے تو موت برحق ہے تاہم عزت و ذلت کی موت کے فرق سے کون واقف نہیں۔
حضرت ڈاکٹر اسرار احمد قبلہ مرحوم مفسر قرآن نے انتقال سے کچھ عرصہ قبل اپنی ایک ٹی وی تقریر میں فرمایا تھا کہ ’’یہ ہندو لوگ مسلمانوں کو ’نجس‘ تصور کرتے ہیں اور ان کا عین مطمع نظر یہ ہے کہ ہندوستان کو اس نجاست سے پاک کردینا چاہئے‘‘ چنانچہ گزشتہ 6سال سے موجودہ حکومت کا بس یہی عین منشاء ہے کہ مسلمانوں سے ہندوستان پاک ہوجائے ،ابتداء میں تو یہ کہتے رہے کہ مسلمان زیادہ اولاد پیدا کرتے ہیں انہیں قانون نافذ کرکے اس حرکت سے روکا جائے پھر کہنے لگے کہ ہر ہندو عورت کو کم از کم 10 ، 10 بچے پیدا کرنا چاہئے۔نریندر مودی اور امیت شاہ سن لیں کہ یہ معاملہ کسی کے کہنے سے نہ قابو میںآنے والا ہے اور نہ ہی بے قابو ہونے والا ہے ۔اس خصوص میں میری معلومات بہ نسبت عام آدمی یا بہ نسبت سیاست دانوں کے زیادہ ہیں کیونکہ میں طبیب ہوں۔ میرا قلم کسی کے عیوب ظاہر کرنے پر بڑی مشکل سے آمادہ ہوتا ہے اب بھی بصد مجبوری قلم کو چلنے پر راضی کیا ہوں کہ بعض نام نہاد شخصیتیں ایسی بھی دیکھا ہوں کہ شادی کے بندھن میں مارکوٹ کر افراد خاندان اور احباب نے باندھ دیا اور بندھے بھی گئے لیکن کئی دہائیوں کے بیت جانے کے باوجود بستر کے بندھن میں نہ بندھے جاسکے ،اب آپ ہی بتلایئے کہ ایک خود مکتفی طبیب بیچارہ کیا کرسکتا ہے اور مذہب کے کمانڈر انچیف حکم صادر فرماتے ہیں کہ 10 بچے پیدا کرو اور ہم گروجی سے کہتے ہیں کہ گروجی چِلّہ بیٹھ کر لوبان کے دھنویں میں چلا چلا کر دُعا کرو کہ بس ایک بچہ ہوجائے جس سے عزت بھی بچ جائے اور نسل بھی بچ جاے۔خیر مجتبیٰ حسین صاحب کے الفاظ بہ اْمیدی منظوری مستعار لے کر لکھ رہا ہوں کہ ’’یادش بخیر‘‘ میرے بچپن میں عموماً کہا جاتا تھا کہ اللہ سر دیکھ کر سرداری دیتا ہے لیکن انقلاباتِ زمانہ بھی بڑی کمال کی چیز ہیں کہ اکیسویں صدی میں جعلی ڈگریوں سے سرداری مل رہی ہے۔قارئین کرام اگر مجھ سے کہا جائے کہ میں اپنے والد مرحوم کا صداقت نامہ ٔپیدائش بتلاؤں توآپ ہی بتلایئے کہ میں بتلاؤں کیا‘ 100 سال سے قبل صداقت نامہ ولادت کا وجود ہی شاید نہیں تھا اور اگر تھا بھی تو میں ایسا کونسا ماہر ریکارڈ کیپر ہوں کہ فوری آپ کے حکم کو بجالا سکوں تاہم ایک چھوٹی سی شرط قبول کیجئے تو میں اس اْمید پر کوشش ضرور کروں گا کہ میرے والد کبھی نہ کبھی کہیں نہ کہیں پیدا ضرور ہوئے ہوں گے لیکن میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آپ اپنا گریجویشن کا سرٹیفکیٹ بتلایئے توآپ قطعی نہیں بتلاسکتے کیونکہ وہ موصوف کبھی کہیں پیدا ہی نہیں ہوئے۔خیر گذشتہ راصلوٰۃآئندہ را احتیاط‘‘
بھائی صاحب آپ کشمیر سے متعلق اہم ترین دفعہ370کو شیر مادر سمجھ کرآنِ واحد میں ہضم فرماگئے اور وہاں کے بے گناہ 70 ، 80 لاکھ شہریوں کو تقریباً پانچ مہینے سے زائد عرصہ تک مکمل قیدی بناکر رکھے۔معصوم بچے بلک بلک کر بر وقت ادویات کے نہ ملنے سے دم توڑ گئے اور ظلم کی انتہا یہ ہے کہ ان معصوم بچوں کی میتوں کو گھروں ہی کے صحنوں میں ماں باپ بھائی بہنوں نے اشک بارآنکھوں سے پیوند خاک کیا۔صدر امریکہ نے دوبارآفر کیا کہ میں مسئلہ کو حل کردوں گا۔جواب میںآپ نے کہا کہ یہ ہمارا داخلی معاملہ ہے تو پھر عمران خاں نے بھی داخلی معاملہ میں زبان ہلائی تھی کہ’’میری نیک تمنائیں مودی جی کے ساتھ ہیں کہ وہ دوسری مرتبہ بھی بھارت کے پرائم منسٹر بن جائیں‘‘ تب آپ نے عمران خاں کو یہ کہہ کر کیوںخاموش نہیں کیا کہ یہ ہمارا داخلی معاملہ ہے۔یہ کھلی دو عملی ایک پرائم منسٹر کو قطعی زیب نہیں دیتی۔بہرکیف! کیاآپ یقین کرتے ہیں کہ آپ کی حکومت پر برے دن کبھی نہیںآئیں گے اور اگر ایسا ہی ہے توآپ شدت سے غلط فہمی کا شکار ہیں کیاآپ اپنے ہی ہاتھوں پیدا کئے ہوئے حالات سے رتھ یاترا والے سابقہ ڈپٹی پرائم منسٹرآف انڈیا اڈوانی جی کے موجودہ سبق آموز حالات سے واقف نہیں ہیں کیاآپ لوگ شری مان پی وی نرسمہا راؤ جی سابق پرائم مسٹرآف انڈیا کے مردہ جسم سے کتوں کے کھلواڑ کی خبریں اخبارات میں نہیں پڑھے ،کیاآپ سابق صدر امریکہ جارج بش کا عراق سے وداعی تقریب کا منظر ٹی وی پر نہیں دیکھے کہ ایک معمولی رپورٹر کے جوتوں سے جارج بش کا اپنے سر کو بچانے والا منظر یاد نہیں ہے۔
دیکھئے عوام کی اکثریت کا بھرم، اسمبلیوں میں لوک سبھا میں راجیہ سبھا میں اکثریت کا بھرم جب بُرا وقت آجاتا ہے تو سب بے معنی و بے فیض ہوکر رہ جاتے ہیں، اڈوانی کے لئے کونسی اکثریت کام آرہی ہے، نرسمہا راؤ کے جسم کو کتوں کی درندگی سے کونسی اکثریت نے تحفظ فراہم کیا، رپورٹر کے جوتوں کو کس سوپر پاور نے بش تک جانے سے روکا۔
تاریخ گواہ ہے کہ 1947ء میں 6 لاکھ مسلمانوں کو قتل کیا گیا اورستمبر 1948ء میں نظام اسٹیٹ کے 3.5 لاکھ مسلمانوں کو تہہ تیغ کیا گیا سارے مسلمانوں کے املاک کو تباہ و تاراج کیا گیا اور اْس وقت کے کرتا دھرتاؤں نے یقین کرلیا کہ ہندوستان کے مسلمان تباہ و تاراج ہوگئے۔ لیکن بفضل تعالیٰ اب بھی ہندوستان میں 30 کروڑ مسلمان آباد ہیں اور پھر 1947ء اور1948ء کو دُہرا کر 25 ، 50 لاکھ مسلمانوں کی زندگیوں کو کسی بھی انداز سے تلف کیا جائے توآپ مطمئن رہیں مسلمانوں کے ماتھے پر بل نہیںآئیں گے۔ آپEVMپر اکثریت پر دولت پر بھروسہ کرتے ہیں اور ہم صرف اللہ بزرگ وبرتر پر بھروسہ کرتے ہیں۔ہم کو یقین کامل ہے کہ موت و حیات صرف اور صرف خداوند متعال کے حکم کے تابع ہوتے ہیں۔ میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہا کہ آپ حضرات اپنے اپنے عبادت کے کمروں میں ایک ایک EVMکا ڈبہ بھی رکھیں اور صبح پوجا پاٹ کے بعد اس ڈبہ کے سامنے بیٹھ کر دونوں ہاتھ جوڑ کر سرجھکائیں اور عاجزی کریں کہا کہ انتخابات میں بھی ہم آپ کی سرپرستی کے منتظر رہیں گے اب رہا سوال الیکشن کمیشن کا تو صرف اوپر اوپر والی موٹی موٹی ’’بالائی ‘‘والا معاملہ ہوتا ہے۔آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ ایم پیز، ایم ایل ایز کے کاروبار،حکومتیں بنانے میں بگاڑنے میں ’’بالائی‘‘ مرکزی کردار ادا کررہی ہے تو پھر ڈبوں میں الٹ پھیر کی کونسی اہمیت رہ جاتی ہے۔ بہرکیف تحریر بعض اوقات اصل عنوان سے منحرف ہوکر عجیب عجیب رْخ اختیار کرجاتی ہے چنانچہ موجودہ تحریر بھی اس عیب سے مبّرا نہیں۔
آخر میں مَیں محترم مجتبیٰ حسین صاحب کے اقدام اور جذبات کا احترام کرتا ہوں اور تندرستی کے ساتھ درازی عمرکا متمنی ہوں۔