محمد صلاح کی خاموش تبلیغ اور ہمارے شیطانی ہنگامے

   

ڈاکٹر محمد احتشام الحسن

مغربی دنیا اور اسلام دشمن سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ سے ہی مسلمانوں اور اسلام کے خلاف یہ پروپگنڈا اختیار کررکھا ہے کہ اسلام تلوار کی زور پر پھیلا ہے حالانکہ حقیقت کچھ اور بیان کرتی ہے کیونکہ اسلام کی عالمگیر مقبولیت حاصل کرنے میں لوگوں کے حسن اخلاق نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ آج بھی اسلام اخلاق کی وجہ سے غیروں کو اپنی طرف مائل کررہا ہے جس کی ایک تازہ مثال حالیہ دنوں میں سامنے آئی جہاں ایک کٹر اسلام دشمن انگریز نے مصر کے عالمی شہرت یافتہ فٹبال کھلاڑی محمد صلاح کے اخلاق اورکردارکی وجہ سے اپنی اسلام دُشمنی کو ختم کرتے ہوئے مشرف بہ اسلام ہوا۔ مسلمانوں کے اس کٹر دشمن انگریز کے مسلمان ہونے کی اس خبر میں دو پہلو نمایاں ہیں، ایک تو مصری فٹبالر محمد صلاح کے اخلاق اور دوسرے اس انگریز کے اسلام کے متعلق تحقیق۔ اگر اس تناظر میں ہم اپنا تجزیہ کریں تو یہ دونوں ہی اوصاف ہم میں نہیں ہیں، نہ ہی ہم اخلاق کا وہ بہترین نمونہ پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے غیر اسلام کی طرف راغب ہوں اور نہ ہی ہم میں تحقیق کا وہ وصف ہے جس سے دین اور دنیا کے علوم کے راز ہم پر کھلنے لگیں۔ مغربی دنیا اور مسلم دشمن میڈیا اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے اور یہ پروپگنڈا کررہا ہے کہ مسلمانوں نے تلوار کی زور پر ظلم و زیادتی کے ذریعہ اسلام کو دنیا میں پھیلایا ہے۔ اسلام کو بدنام کرنے کیلئے مغربی دنیا نے ’’اسلاموفوبیا‘‘ کی اصطلاح عام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اسلاموفوبیا وہ لفظ ہے جو کہ غیروں میں اسلام کے متعلق ڈر، خوف، دہشت اور نفرت جیسے جذبات پیدا کرتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلام ایک امن پسند مذہب ہے جو کہ تلوار کے زور پر نہیں بلکہ اخلاق اور بہتر برتاؤ سے پھیلا ہے۔ یہ سچ ہے کہ انبیاء، رسول، ولیوں اور اللہ کے نیک بندوں کے اخلاق سے اسلام غیروں میں منتقل ہوا ہے جس کی تازہ مثال محمد صلاح کے اخلاق سے مشرف بہ اسلام ہونے والے انگریز ’’بین برڈ‘‘ ہے۔ بین برڈ جوکہ اسلام اور مسلمانوں سے شدید نفرت کرتا تھا لیکن اب وہ فٹبال کھلاڑی محمد صلاح کے اخلاق و کردار کی وجہ سے حلقۂ اسلام میں آچکا ہے۔ دائرۂ اسلام میں داخل ہونے والے بین برڈ نے خود کہا ہے کہ اسے اسلام سے شدید نفرت تھی کیونکہ جب وہ اسکول میں زیرتعلیم تھا، تبھی سے اسے اسلاموفوبیا کے ذریعہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کرنے کا ماحول فراہم کیا گیا تھا لیکن جب یوروپی فٹبال کلب ’لیور پول‘ کی نمائندگی کرنے والے عالمی شہرت یافتہ مصر کے فٹبالر محمد صلاح کی جانب سے اسلام کے حقیقی تصویر پیش کی گئی تو وہ اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوا اور اسلام قبول کرنے اور مسلمان ہونے کا فیصلہ کیا۔

بین برڈ کا انٹرویو پڑھنے کے بعد یہ واضح ہوجاتا ہے کہ محمد صلاح کے اخلاق نے اس شدت پسند انگریز کو امن پسند اسلام قبول کرنے کی سمت راغب کیا، کیونکہ اس نے اعتراف کیا ہے کہ مصری فٹبالر کے اخلاق نے ہی اس کی شخصیت میں تبدیلی اور اسلام کو صحیح انداز میں سمجھنے میں اس کی رہنمائی کی ہے، حالانکہ بین برڈ نے فٹبالر محمد صلاح سے ملاقات نہیں کی، لیکن محمد صلاح کے متعلق اس نے جو تحقیق کی اور جو مطالعہ کیا اس نے اسلام کی راہ اس کے لئے آسان کی۔ بین برڈ برطانیہ کے شہر نوٹنگھم میں فاریسٹ سیزن کا ٹکٹ ہولڈر ہے لیکن اس نے اپنے مسلمان ہونے اور اسلامی عقیدہ ظاہر کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ بین برڈ نے محمد صلاح سے ملاقات کی خواہش بھی ظاہر کی ہے اورکہا کہ وہ فٹبالر سے اظہار تشکر بھی کرنا چاہتا ہے کیونکہ صلاح کے اخلاق اور طرز زندگی نے ہی اسے اسلام قبول کرنے کی طرف مائل کیا ہے۔ بین برڈ نے اپنے انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ ’’مجھے یہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے کہ اسلام کے بارے میں میری رائے بہت منفی تھی اور میں سمجھتا تھا کہ مسلمان پسماندہ ہیں اور وہ مغربی تہذیب سے خود کو ہم آہنگ نہیں کرتے اور اقتدار سنبھالنا چاہتے ہیں۔ میں نے ہمیشہ اسلام سے نفرت کی اور مسلمانوں سے بھی نفرت رہی‘‘۔ بین برڈ کے مطابق جب وہ اسکول میں چھٹی جماعت کا طالب علم تھا تو وہ ایک ایسا دور تھا جب وہ اپنی بدقسمتی کا الزام لگانے کیلئے کسی کی ضرورت محسوس کرتا تھا۔ اس تلاش کو مغربی میڈیا اور مسلم دشمن صحافت نے آسان کردیا جس کے ذریعہ وہ مسلمانوں کو موردالزام ٹھہرانے لگا۔ محمد صلاح کی وجہ سے اسلام قبول کرنا بھی بین برڈ کیلئے کسی کرشمہ سے کم نہیں، کیونکہ یونیورسٹی میں جب اسے ایک تحقیقی مقالہ پیش کرنا تھا تو اس کے نگراں نے اسے محمد صلاح پر اپنا تحقیقی مقالہ پیش کرنے کا مشورہ دیا جس کے بعد اس نے محمد صلاح پر جو ترانہ یوروپی فٹبال حلقہ میں موجود ہے، ’’محمد صلاح… اللہ کا تحفہ‘‘جیسے الفاظ پر مشتمل ہے، اس ترانہ پر برڈ نے اپنا تحقیقی کام شروع کیا ۔ اس ضمن میں برڈ نے کہا کہ مجھے پتہ چلا کہ محمد صلاح ایک انسان دوست فٹبال کھلاڑی ہے جوکہ اپنے مذہب سے بھی بے انتہا محبت کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب وہ فٹبال کے مقابلے میں گول بناتا ہے تو میدان ہی میں سر بہ سُجود ہوجاتا ہے۔ اس کے اس عمل کا فٹبال دُنیا کے کروڑہا شائقین مشاہدہ کرتے ہیں جوکہ اسلام کا ایک خاموش پیغام ہے کہ کس طرح کامیابی پر اللہ کا شکر ادا کیا جاسکتا ہے، یہی نہیں بلکہ ایک ننھا شائق جب اپنے پسندیدہ فٹبالر (صلاح) سے ملنے کی کوشش میں اپنی ناک تڑوا بیٹھا تھا اور جب صلاح کو اس کا علم ہوا تھا، مصری کھلاڑی نے اس زخمی ننھے شائق کے ساتھ اسی حالت میں تصویرکشی بھی کیونکہ اس سے ننھے شائق کو اپنے پسندیدہ کھلاڑی کے ساتھ یادگار فوٹو اُترنے کا موقع دستیاب ہو۔ صلاح کے اخلاق سے بین برڈ نے اسلام قبول کیا ہے، جبکہ صلاح کے متعلق یہ باتیں مشہور ہیں کہ وہ انسانیت دوست اور اسلام پر پابندی کے ساتھ چلنے والا کھلاڑی ہے، کیونکہ جہاں وہ سفر کے دوران طیارے میں تلاوتِ قرآن مجید میں مصروف رہتا ہے تو اس کے اعلیٰ اخلاق کی کئی ایک مثالیں موجود ہیں جس میں یہ واقعہ کافی مشہور ہے ۔ جب ان کے گھر سرقے کی واردات ہوئی تھی اور چور پکڑا گیا تھا جس پر صلاح کے والد نے سارق کو گرفتار کرواتے ہوئے مقدمہ درج کروانے کا ارادہ ظاہر کیا تو صلاح نے اپنے والد سے اسے معاف کرنے کی گزارش کی اور ساتھ ہی اس سارق کو مالی تعاون فراہم کرنے کے علاوہ سارق کو روزگار فراہم کرنے کا بھی انتظام کیا تاکہ وہ چوری کا راستہ ترک کردے۔ فلاح و بہبود کیلئے صلاح کے کئی کارنامے موجود ہیں جوکہ مصری فٹبالر کی جانب سے کی جانے والی اسلام کی خاموش تبلیغ ہے۔ اب اگر ہم اپنے نوجوانوں کو دیکھتے ہیں کہ ان کی طرز زندگی کیا ہے ؟ نوجوان جوکہ کھلاڑیوں اور دیگر مشہور شخصیتوں کو اپنا ہیرو تصور کرتے ہیں اور ان کی طرح وضع و قطع اپنانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن صلاح جیسے اخلاق اختیار کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ آج ہم اپنے اطراف دیکھ سکتے ہیں کہ ہمارے نوجوانوں کے اخلاق کا معیار کیا ہے، جس کیلئے ایک واقعہ ذہن میں آرہا ہے کہ کچھ دنوں قبل وجئے نگر کالونی میں موجود آندھرا بینک کے سامنے ٹریفک کسی قدر جام ہونے کی وجہ سے اسکوٹر پر ایک معمر غیرمسلم جوڑا آگے نکلنے کی کوشش کررہا تھا کہ اس کوشش میں ان کی گاڑی سے ایک ماروتی کار کو ہلکا سا دھکا لگا جس کے ساتھ ہی کار میں سے ایک خوبرو نوجوان برآمد ہوا جس نے باہر نکلتے ہی اپنی زبان سے گندی گالیاں دیتے ہوئے اس معمر جوڑے کو برا بھلا کہنے لگا۔اخلاقی گراوٹ کے ایسے درجنوں واقعات ہمیں روزآنہ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ محمد صلاح میں بہتر اخلاق اور بین برڈ میں معلومات کی جستجو و مطالعہ نے اسے اسلام قبول کرنے کی سمت راغب کیا تو اس کے برعکس ہم میں اخلاقی گراوٹ اور علم کے حصول سے لاپرواہی، پڑوسیوں اور جاننے والوں کو بھی اسلام سے دُور کررہی ہے۔ کہاں محمد صلاح کے اخلاق جسے دیکھ کر کٹر مسلم دشمن انگریز اسلام قبول کررہا ہے اور کہاں روزانہ وجئے نگر کالونی جیسے واقعات سے ہم دوسروں کو اسلام بیزار کررہے ہیں۔ ہندوستان میں اب جبکہ اسلام اور مسلمانوں کو متعلق ذہنوں کو زہر آلود کیا جارہا ہے تو ایسے حالات میں مسلمانوں اور خاص کر نوجوانوں پر یہ اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے اخلاق کا معیار بلند کریں تاکہ اس کے ذریعہ اسلام کی اصل تصویر اور سچائی دوسروں تک پہنچے۔٭