مدارس اسلامیہ کے سر پر تلوار مسلمانوں کے ساتھ ظلم: فیروز بخت احمد

,

   

مدارس کو جدید بنائیے، اْنکا ناطقہ بند نہ کیجئے، وزیراعظم اور وزیر داخلہ کے نام مکتوب

نئی دہلی :سابق چانسلر مولانا آزاد نیشنل یونیورسٹی حیدرآباد نے کہا کہ جس طریقہ سے مدارس اسلامیہ کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے، اْس سے مْسلم سماج میں بڑی بے چینی اور بے اطمینانی ہے۔ حال ہی میں الہ آباد ہائی کورٹ کے آرڈر سے بھی مسلمان رنج و صدمہ میں ہیں۔ کبھی تو مدارس کو دہشت گردوں کا اڈہ قرار دیا جاتا ہے، تو کبھی اْن کو دی گئی امداد پر سوال کھڑے کئے جاتے ہیں، تو کبھی کسی اور طریقہ سے اْنکا ناطقہ بند کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ مدارس نہ صرف اسلام، اْردو، عربی، فارسی و اسلامی ثقافت، تہذیب و تمدن کے قلعے ہیں بلکہ علامت ہیں اْن قربانیوں کی اور جدّ و جہد آزادی ہند کی، کہ جس میں کنیا کماری سے سوات (آج پاکستان میں) وادی تک لاکھوں علماء و مدرس کو انگریزوں نے پیڑوں پر پھانسی دے کر انکی نعشوں کو لٹکا دیا تھا۔ لہٰذا اس وطن عزیز ہندوستان کی مٹّی میں مدارس اسلامیہ کے اساتذہ و طلباء کا خون جذب ہے! ہندوستان میں تقریباً 25000 سے زائد مدارس اسلامیہ اور 50000 سے زائد اساتذہ ضرور اس بات کے حق میں ہیں کہ مدارس کی جدید کاری ضرور ہو۔جہاں تک علماء دین، اکابرین، محدّثین و عمائدین ملّت کا تعلق ہے، ہندوستان کی آزادی کے سلسلہ میں اسیر مالٹا نے بھی 21 فروری 1917 سے 8 جون 1920تک دا مے درمے قدمے سخنے کسی بھی قِسم کی قربانی سے گریز نہیں کیا، خصوصی ذِکر سیّد عطا اللہ شاہ بْخاری، حضرت عارف مجدّد ثانی، اشفاق اللہ خان کاکوروی، علامہ انور شاہ کشمیری، مولانا حسرت موہانی، مولانا اِمام بخش صہبائی وغیرہ کا ہے۔فیروز بخت نے اس ضمن میں وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ، امیت شاہ کے نام اپنے مکتوب میںکہا ہے کہ ہندوستان کا مسلمان، حب الوطنی، نصف الا اِیمان میں یقین رکھتا ہے ، جس کا سبق اْسے قرآن و حدیث دیتے ہیں۔ بخت نے مزید لکھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی صاحب نے ہمیشہ مسلمانوں کے تعلّق سے یہ کہا ہے کہ وہ ہر مْسلم کے ایک ہاتھ میں قرآن اور ایک میں کمپیوٹر دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ کہ مسلمان اْنکی اولاد کی طرح ہیں اور اْنکے ساتھ وہ برابری کا سلوک کرنا چاہتے ہیں۔ مْسلم عوام نے اس کا خیر مقدم کیا ہے، مگر وہ مودی جی سے یہ بھی درخواست کرنا چاہتے ہیں کہ اپنی سرکار اور دیگر وزراء کو بھی اس بات پر عمل درآمد و عمل پیرا ہونے کو کہیں۔ یہ مدارس اسلامیہ کے فرزند ہی تھے کے جنہوں ںے کابل میں 9 جولائی 1916 میں ہندوستانی حکومت بنائی تھی جس کے راجہ مہیندر پرتاپ سنگھ اور وزیرِ اعظم، حضرت مولانا محمد حسن تھے۔انہوں نے موہن بھاگوت کے اس قول کو بھی دہرایا کہ ہندوستان کی ترقی، تہذیب و ثقافت، مسلمانان ہند کی مرہون منت ہے اور یہ کہ بغیر مسلمانوں کے ہندوستان کا تصوّر ہی نہیں کیا جا سکتا! ہندو، مْسلم، سکھ، عیسائی، پارسی وغیرہ ہمیشہ سے ہی سر زمین ہند پر شیر و شکر کی طرح ایک خوبصورت گلدستہ کی مانند رہتے چلے آئے ہیں! ہندوستانی مسلمان کا بہترین دوست ہندو ہے اور سب سے اچھا مْلک ہندوستان ہے! ٹھیک اسی طرح تمام ہندو برادرانِ وطن کو پتہ ہونا چاہئے کہ ہندوستان کا سو فیصد مسلمان، وطن پر نچھاور ہونے کو ہمیشہ تیار ہے، جیسا کہ امام الہند بھارت رتن مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی جامع مسجد کی سیڑھیوں سے کہا تھا!