مدھیہ پردیش میں بی جے پی پریشان

   

آسمان اتنی بلندی پر جو اتراتا ہے
بھول جاتا ہے زمین سے نظر آتا ہے
جیسے جیسے ملک کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کا وقت قریب آتا جا رہا ہے بی جے پی کی مشکلات میںاضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ ان مشکلات سے بی جے پی کی پریشانیوں اور الجھن میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور بی جے پی کیلئے حالات سدھرتے اور سنبھلتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ جس طرح کرناٹک اسمبلی انتخابات سے قبل بی جے پی ہر گذرتے دن کے ساتھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا اسی طرح مدھیہ پردیش میں بھی حالات بی جے پی کے قابو سے باہر ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ حالانکہ شیوراج سنگھ چوہان کی حکومت کے تعلق سے یہ تاثر عام کردیا گیا تھا کہ اسے بھی گجرات کی طرح انتخابات میں شکست دینا مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔ تاہم گذشتہ اسمبلی انتخابات ہی میں کانگریس نے اسے شکست دیدی تھی ۔ بعد میںا قتدار اور عہدہ کے لالچ میں جیوتر آدتیہ سندھیا کی بغاوت کے بعد بی جے پی نے کرناٹک کی ہی طرح مدھیہ پردیش میں بھی پچھلے دروازے سے اقتدار حاصل کیا تھا ۔ بی جے پی نے حالانکہ ساڑھے تین سال قبل اقتدار پالیا تھا تاہم اب اس کی صورتحال مشکل سے مشکل ہوتی جا رہی ہے اور جس طرح کرناٹک میں انتخابات سے قبل بی جے پی قائدین کے انحراف کا ایک سلسلہ تواتر سے شروع ہوا تھا وہی صورتحال مدھیہ پردیش میں بھی ہے ۔ بی جے پی کے سابق ارکان اسمبلی ‘ موجودہ ارکان اسمبلی اور موجودہ ارکان پارلیمنٹ تک بھی اس کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں اور کانگریس میںشمولیت اختیار کرنے لگے ہیں۔ بی جے پی کی جانب سے ان قائدین کو روکنے کیلئے جو کچھ بھی حکمت عملی بنائی جا رہی ہے وہ بے اثر اور بے سود ثابت ہونے لگی ہے ۔ بی جے پی قائدین اس صورتحال سے پوری طرح بے بس نظر آنے لگے ہیں اور یکے بعد دیگرے پارٹی قائدین کی دوریوں نے اسے تشویش میںمبتلا کردیا ہے ۔ بی جے پی تقریبا ہر انتخاب سے قبل دوسری جماعتوں میں اسی طرح انحراف کی حوصلہ افزائی کرتی ہے ۔ دوسری جماعتوں کے قائدین کو یا تو لالچ دیا جاتا ہے یا پھر تحقیقاتی ایجنسیوںسے اور مقدمات سے خوفزدہ کیا جاتا ہے اور پھر انہیںاپنی صفوں میںشامل کرتے ہوئے تشہیر کی جاتی ہے ۔
مدھیہ پردیش میں بی جے پی کیلئے صورتحال اس لئے بھی مشکل ہوتی چلی جارہی ہے کیونکہ ّْ جس جیوتر آدتیہ سندھیا کو استعمال کرتے ہوئے اور جن کے حامیوں کو شامل کرتے ہوئے بی جے پی نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا اب ان کی وجہ سے ہی کئی دوسرے قائدین بی جے پی چھوڑنے لگے ہیں۔ خود جیوتر آدتیہ سندھیا کے بھی کچھ حامی پہلے ہی بی جے پی کی کشتی سے کود پڑے ہیں اور کانگریس میںشمولیت اختیار کرچکے ہیں۔ دوسرے قائدین کا دعوی ہے کہ بی جے پی میں جیوتر آدتیہ سندھیا اور ان کے حامیوں کی وجہ سے ان کا اپنا جینا محال ہوگیا ہے ۔ ان کا عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ بی جے پی میں گھٹن محسوس کرنے لگے ہیں اور اپنے سیاسی مستقبل کو محفوظ بنانے کیلئے وہ بی جے پی کو چھوڑ کر کانگریس میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔ یہ ایسی صورتحال ہے جو بی جے پی کیلئے نہ اگلتے ہی بنے اور نہ نگلتے ہی بنے والی ہوگئی ہے ۔ بی جے پی موجودہ صورتحال میں وقت کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے نہ جیوتر آدتیہ سندھیا کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کے موقف میں ہے اور نہ ہی ان کے حامیوں پر لگام کسی جا رہی ہے ۔ اسی بے بسی کا نتیجہ ہے کہ بی جے پی سے کئی دہوں سے وابستہ قائدین بھی اب اپنا بوریا بستر لپیٹنے لگے ہیں۔ داخلی طور پر ان قائدین کے انحراف کو روکنے کیلئے ہر ممکن اقدامات کئے جا رہے ہیں لیکن کوئی بھی فیصلہ یا کوئی بھی اقدام سودمند یا ثمر آور ثابت نہیں ہو رہا ہے اور انحراف اور پارٹی چھوڑنے کا سلسلہ جاری ہے ۔
یہی وہ صورتحال تھی جو کرناٹک میں اسمبلی انتخابات سے قبل پیدا ہوئی تھی ۔ وہاں بھی کانگریس اور جے ڈی ایس سے انحراف کرکے بی جے پی میںشامل ہونے والوں نے گھرواپسی کی تھی بلکہ جے ڈی ایس کے قائدین نے بھی کانگریس کا ہی سہارا لیا تھا ۔ خود بی جے پی کے بھی کئی قائدین کانگریس میں شامل ہوگئے تھے ۔ جس طرح کرناٹک میں کرپشن ایک اصل اور اہم موضوع بن گیا تھا مدھیہ پردیش میں بھی کرپشن کو موضوع بحث بنایا جا رہا ہے اور بی جے پی اور شیوراج سنگھ چوہان کی حکومت ان سے پریشان ہے ۔ موجودہ صورتحال میں وہ خود کو بے بس محسوس کرنے لگے ہیں اور حالات ان کے قابو سے باہر ہوتے جا رہے ہیں۔