مدھیہ پردیش ‘ چھتیس گڑھ ‘ انتخابی مہم ختم

   

ملک کی پانچ ریاستوں کا انتخابی عمل اب بتدریج اپنے اختتامی مراحل میں پہونچ رہا ہے ۔ شمال مشرقی ریاست میزورم میں رائے دہی ہوچکی ہے ۔ چھتیس گڑھ میں پہلے مرحلے میں 20 حلقوں کیلئے ووٹ ڈالے جاچکے ہیں۔ چھتیس گڑھ میں دوسرے مرحلہ میں 70 نشستوں کیلئے اور مدھیہ پردیش میں اسمبلی کی تمام 230 نشستوں کیلئے 17 نومبر جمعہ کو ووٹ ڈالے جانے ہیں۔ یہاں انتخابی مہم کا آج اختتام عمل میں آچکا ہے ۔ کانگریس اور بی جے پی میں ان ریاستوں میں راست ٹکراؤ ہے ۔ کانگریس اپنے انتخابی مظاہرہ کو بہتر بنانے کیلئے کوشاں ہے تو بی جے پی اپنی مقبولیت کے گراف کو برقرار رکھنے پر توجہ دے رہی ہے ۔ بی جے پی مدھیہ پردیش میں اقتدار بچانا چاہتی ہے تو کانگریس چھتیس گڑھ کا اقتدار برقرار رکھنا چاہتی ہے ۔ انتخابی مہم میں دونوں ہی جماعتوں نے پوری شدت دکھائی ۔ جارحانہ تیور کے ساتھ مہم چلائی گئی ہے ۔ ایک دوسرے کو تنقیدوں کا نشانہ بنایا گیا ۔ الزامات و جوابی الزامات بھی عائد کئے گئے ۔ اب فیصلہ ووٹرس کے ہاتھ میں آگیا ہے ۔ رائے دہندوں کے پاس دو دن کا وقت ہے کہ وہ سوچ سمجھ کر اپنے ووٹ کا استعمال کریں اور ایسے امیدواروں کا انتخاب عمل میں لائیں جو حقیقی معنوں میں ان کے نمائندے بنتے ہوئے ان کی اور ریاست کی ترقی کو یقینی بنانے کیلئے ترجیحی بنیادوں پر کام کرسکیں۔ ایسی حکومتوں کا انتخاب عمل میں لائیں جو بدعنوانیوں اور کرپشن سے پاک ہو اور عوامی فلاح و بہبود پر توجہ کرتے ہوئے موثر و جامع حکمت عملی کے ساتھ کام کرسکے ۔ ایسی حکومتوں کو اقتدار سے بیدخل کرنے سے گریز کریں جنہوں نے اپنی طویل حکمرانی میں عوام کیلئے محض زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کیا ۔ جن حکومتوں میں اسکامس اور اسکینڈلس ہوئے ہوں اور بدعنوانیوں و کرپشن کا عروج رہا ہو۔ اقتدار کے مزید لوٹنے والوں کی بجائے عوامی خدمت اور ریاستوں کی بہتری کا جذبہ رکھنے والوں کو ترجیح دیتے ہوئے عوام کو اپنے سیاسی شعور اور بصیرت کا بہتر سے بہتر مظاہرہ کرنا چاہئے ۔ روایتی انداز میں جذباتیت کا شکار ہونے کی بجائے حوش و ہواس میں رہتے ہوئے فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے ۔
انتخابی مہم کے دوران کانگریس قائدین راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی نے عوام سے مسلسل خطاب کئے ۔ بڑے جلسے منعقد کئے گئے ۔ ریلیوں کا اہتمام کیا گیا اور روڈ شوز کرتے ہوئے بھی عوام پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی ۔ ان کی تائید حاصل کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی ۔ کانگریس کی انتخابی مہم کا مرکز عوامی مسائل رہے ہیں۔ راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی نے مخالف قائدین اور امیدواروں پر شخصی تنقیدیں کرنے کی بجائے عوامی مسائل کو موضوع بحث بنانے کو ترجیح دی تھی ۔ انہیں پہلی کامیابی یہ ملی کہ بی جے پی کو انتخابات کے موسم میں فرقہ پرستی کے مسائل کو ہوا دینے کا موقع نہیں مل سکا ۔ مذہبی منافرت پھیلانے کے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے ۔ رائے دہندے اپنے مسائل پر بات کرنے لگے ہیں اور انہوں نے عوام کو سہولیات فراہم کرنے کے منصوبوں پر اپنے اطمینان کا اظہار بھی کیا تھا ۔ انہوں نے کانگریس اور بی جے پی دونوں کی جانب سے کئے گئے عوامی اعلانات پر غور بھی کیا ہے ۔ کچھ نے کانگریس کے منصوبوں کی ستائش کی تو کچھ نے بی جے پی کے پروگرامس کو پسند کیا ہے ۔ عموما بی جے پی کی جانب سے عوامی مسائل کی بجائے مذہبی منافرت کی حکمت عملی اختیار کی جاتی رہی ہے اور ووٹرس اس سے متاثر ہوتے رہے ہیں۔ یہاں بی جے پی کو اس کا موقع نہیں مل سکا اور اسے بھی بحالت مجبوری عوامی مسائل پر ہی بات کرنی پڑی اور عوام کیلئے نت نئی اسکیمات کے اعلانات پر بھی مجبور ہونا پڑا تھا ۔
چھتیس گڑھ میں کانگریس کو بیدخل کرتے ہوئے اقتدار پر واپسی کرنے بی جے پی کی جدوجہد ہے اور وہاں 70 نشستوں کیلئے دوسرے مرحلہ میں جمعہ کو ووٹ ڈالے جائیں گے ۔ یہاں بھی کچھ گوشوں کی جانب سے ابتداء میں حالات کا رخ بدلنے اورعوامی مسائل کو پس پشت ڈالنے کی کوششیں کی گئیں لیکن اس میں انہیں پوری طرح کامیابی نہیں مل سکی ۔ کچھ حد تک یہ لوگ زبان درازیاں کرتے رہے ہیں لیکن ووٹرس کی توجہ اب مذہبی مسائل کی جانب نہیں بلکہ فلاحی اسکیمات اور سہولیات کی جانب رہی ۔ اس صورتحال میں جب ووٹ ڈالے جائیں گے تو ایک اچھے اور بہتر فیصلے کی امید کی جا رہی ہے جس سے ریاست کی بہتری ہوسکے گی ۔