مرتد اسلام ۰۰۰ اﷲ کو ہرگز پرواہ نہیں

   

ڈاکٹر قمر حسین انصاری
ہمارے ملک میں آج کل نفرتوں کے سوداگروں کے سودہ بازی کی ایک نئی مہم ’’گھر واپسی ‘‘ رواں دواں ہے جس کے ہمارے ، نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ’’آسان نشانہ ‘‘ ہیں ۔ جنھیں نوکری کی لالچ ، شادی اور گھر کی ضمانت دیکر اُکسایا جارہا ہے کہ وہ ترکِ اسلام کریں ۔ یہ ایسے نوجوان ہیں جن کے گھروں میں دینی ماحول کمزور ہے یا نہیں کے برابر ہے اور جو زیادہ تر آئی ٹی کمپنیوں میں برسرروزگار ہیں، جن کا مقصد زندگی دنیاوی عیش و عشرت کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔ ایسے بدبخت نوجوانوں کے انٹرویوز کے وی سیز (VCs) بنائے جارہے ہیں اور اُن سے کُرید کُرید کر یہ پوچھا جارہا ہے کہ کیوں اُنھوں نے اسلام چھوڑا ؟ اور یہ بیچارے اپنے دین کی کم علمی کی وجہ سے غلط سلط وجوہات بیان کررہے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں مگر یہاں ہمیں بھی سنجیدگی سے سونچنا چاہئے کہ کہیں یہ ہماری خود کردہ معاشراتی غلطیوں کا نتیجہ تو نہیں کیونکہ ’’خود کردہ را علاج نیست ‘‘ ۔
اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے اگر تم میں سے کوئی دین سے پھرتا ہے ( تو پھر جائے ) اﷲ کو اس بات کی ہرگز پرواہ نہیں کہ دین اسلام سے باہر ہوجائے اور مُرتد ہوجائے ۔ جو بھی اس طرح کا عمل کریگا وہ خود اس کا ذمہ دار ہوگا ۔ یعنی اﷲ تعالیٰ دو ٹوک انداز میں کہتا ہے کہ وہ اسلام کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے بلکہ ایسے بہت سے لوگوں کو پیدا کریگا جو اﷲ کو محبوب ہوں گے اور اﷲ اُن کو محبوب ہوگا یعنی اُن سے خدا اور وہ خدا سے محبت کریں گے ، جو مومنوں پر نرم اور منکرین پر سخت ہوں گے ۔ (سورۃ المائدہ) اور وہ اقامت دین کے لئے اﷲ کی راہ میں جدوجہد کریں گے ۔ یہ سچے اہل ایمان اور پیروانِ محمدؐ کی پہچان ہے جن کا ایقان اِس آیت قُلْ اِنْ كُنْتُـمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِىْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ پر ہے ۔
مومنوں پر نرم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص اہل ایمان کے مقابل اپنی طاقت اپنا اثر و رسوخ ، اپنا مال اپنا جسمانی زور ، مسلمانوں کو دبانے ، ستانے اور نقصان پہنچانے کے لئے استعمال نہ کرے اور مسلمان اُس کو ہمدردِ ملت ہی پائیں ۔ (تفہیم القرآن ) مگر افسوس ہم دیکھتے ہیں کہ ساری دُنیا میں مسلمان ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہیں اور بجائے نرم ہونے کے آپس میں سخت اور ظالم ہے ۔ منکرین پر سخت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایک مومن اپنے ایمان کی پُختگی ، دینداری کے خلوص ، اصُول کی مضبُوطی، سیرت کی طاقت اور ایمان کی فراست سے مخالف اسلام کے خلاف پتھر کی چٹان کے مانند ہو کہ کسی بھی ملامت سے اپنے مقام دینداری سے ہٹایا نہ جاسکے ۔ (تفہیم القرآن ) معلوم ہوا کہ اگر ہم بھی اپنی منزل کو پانا چاہتے ہیں تو ہمیں اﷲ اور اُس کے رسولؐ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا چاہئے ۔ وہ بھی کیا اچھے دن تھے جب ہمارا ملک گنگا جمنی تہذیب ، آپسی محبت اور بھائی چارگی کا گہوارہ تھا ۔ ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے غم اور خوشی میں برابر کے شریک ہوا کرتے تھے ۔ آج بھی ہمارے ملک کی اکثریت یہی چاہتی ہے ۔
حضرت ابوذرؓ فرماتے ہیں رسول اﷲ ﷺ نے مجھے سات باتوں کا حُکم دیا ہے۔ (۱) مسکینوں سے محبت رکھو ، اُن کے ساتھ اُٹھو بیٹھو ۔ (۲) صلۂ رحمی کرتے رہو ۔ (۳) حق کی بات کرو چاہے وہ سب کو کڑوی لگے ۔ (۴) کسی سے کچھ نہ مانگو ۔ (۵) دُنیوی اُمور میں اپنے سے کم درجہ کے لوگوں کو دیکھو ( تاکہ تم میں قناعت اور شُکر خداوندی آئے ) ۔ (۶) دین کے معاملہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈرو ۔ ( ۷) بکثرت لاحول ولا قوۃ الا باﷲ پڑھتے رہو کیونکہ یہ کلمہ عرش کے نیچے کا خزانہ ہے ۔
اﷲ قادر المطلق ہے ۔ وسیع ذرائع کا مالک ہے وہ اپنا فضل و کرم جسے چاہے عطا کرتا ہے ۔ مولانا رومیؒ نے کیا خوب کہا ہے : اگر تم قرآن کو آنکھوں سے دیکھو گے تو الفاظ نظر آئیں گے ۔ دماغ سے دیکھو گے تو علم نظر آئے گا ، دل سے دیکھوگے تو محبت نظر آئیگی اور اگر اپنی روح سے دیکھو گے تو خدا نظر آئیگا ۔ پروردگار تو ہمیں قرآن پڑھنے ، سُننے ، سمجھنے اور اُس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ بجاہ طہٰ و یٰس
مرتد اسلام ! یاد رکھو تم اﷲ کی پکڑ سے ہرگز بچ نہ پاؤ گے ۔
’’وَمَا تَوْفِيْقِىٓ اِلَّا بِاللّٰهِ ۚ ‘‘