مرکزی حکومت اورعلاقائی جماعتیں

   

ملک میں جب کبھی کوئی اہم قانون سازی یا بل کی منظوری کا مرحلہ آتا ہے تو کچھ علاقائی جماعتیں جہاں مرکزی حکومت کے خلاف موقف اختیار کرتی ہیں تو کوئی موقع کی نزکت کو سمجھتے ہوئے اپنے لئے سودے بازی کرنے سے گریز نہیں کرتیں۔ کچھ جماعتیں کھل کر حکومت کی تائید کرتی ہیں تو کچھ در پردہ مخالفت کا ناٹک کرتے ہوئے اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کرلیتی ہیں۔ گذشتہ دنوں دہلی میں عہدیداروں کے کنٹرول سے متعلق بل کو پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا تھا ۔ اس سے قبل حکومت نے سپریم کورٹ میں شکست کھانے کے باوجود دہلی میں عہدیداروں کا کنٹرول وہاں کی منتخب اور عوام کے ووٹوںسے چنی ہوئی حکومت کو دینے سے انکار کردیا اور اس تعلق سے ایک آرڈیننس جاری کرتے ہوئے کنٹرول اپنے پاس ہی رکھا تھا ۔ سیاسی اختلافات کی وجہ سے حکمرانی میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی روایت اس طرح کے اقدامات سے تقویت پانے لگی ہے ۔ ویسے بھی دہلی ہو یا دوسری ایسی ریاستوں کی حکومتیں ہوں جہاں غیر بی جے پی جماعتیں اقتدار پر ہیں مرکزی حکومت کی جانب سے ان کے کام کاج میں رکاوٹ پیدا کرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے ۔ جہاں مکمل ریاستیں ہیں وہاں گورنرس کے ذریعہ سے اس طرح کی کارروائیاں کی جا رہی ہیں جن کے نتیجہ میں ریاستی حکومت کے کام کاج میں مداخلت ہو رہی ہے اور ریاستی حکومتوں کا مرکز کے ساتھ ٹکراو ہو رہا ہے ۔ ان میں مغربی بنگال سے لے کر کیرالا ‘ ٹاملناڈو سے تلنگانہ اور دوسری ریاستیں بھی شامل ہیں۔ جب تک مہاراشٹرا میں مہا وکاس اگھاڑی کی حکومت تھی وہاں بھی ایسا ہی کیا گیا تھا ۔ دہلی میں عام آدمی پارٹی کی حکومت کے کام کاج میں مداخلتیں کرنے کا سلسلہ حالیہ مہینوں میں تیز ہوگیا ہے اور سپریم کورٹ سے فیصلہ آنے کے باوجود بھی وہاں عوامی منتخب حکومت کو کام کاج کرنے کا موقع نہیں دیا جا رہا ہے ۔ اس صورت میں بھی کچھ علاقائی جماعتیں اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے مرکز کی تائیدکر رہی ہیں اور یہ بھی دعوے کئے جا رہے ہیں کہ مقدمات اور تحقیقاتی ایجنسیوں کا خوف دلاتے ہوئے ان جماعتوں کو مجبور کیا جا رہا ہے ۔
مرکز میں جس وقت سے مودی کی زیر قیادت حکومت قائم ہوئی ہے یہ نعرہ دیا گیا تھا کہ ملک کو کانگریس سے پاک کردیا جائیگا ۔ کانگریس کا سیاسی طور پر خاتمہ کردیا جائیگا ۔ کئی علاقائی جماعتیںاس نعرہ کی کشش کا شکار ہوگئیں کیونکہ انہیں اپنی اپنی ریاستوں میں کانگریس سے مقابلہ درپیش تھا ۔ تاہم کانگریس کو نشانہ بنانے کے نام پر کئی جگہ علاقائی جماعتوں کے خاتمہ کے منصوبے تیار ہوگئے تھے ۔ یکے بعد دیگرے علاقائی جماعتوںکو نشانہ بنانے اور ان کی سیاسی ساکھ اور گرفت کو کمزور کرنے کے اقدامات کئے گئے تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ مہاراشٹرا میںشیوسینا نے ادھو ٹھاکرے کی قیادت میں بی جے پی سے دوری اختیار کرلی تھی ۔ بہار میں نتیش کمار نے این ڈی اے سے ترک تعلق کرتے ہوئے دوبارہ مہا گٹھ بندھن میں واپسی کی تھی ۔ پنجاب میں شرومنی اکالی دل نے بی جے پی سے ترک تعلق کرلیا تھا ۔ آندھرا پردیش میں تلگودیشم نے بی جے پی کی شدت سے مخالفت کی تھی ۔ اترپردیش میں او پی راج بھر بی جے پی سے دور ہوگئے تھے ۔ تاہم اب حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے بی جے پی نے ان علاقائی جماعتوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کر رہی ہے ۔ خاص طور پر دہلی سے متعلق قانون پر اوڈیشہ کی بیجو جنتادل ‘ آندھرا پردیش کی وائی ایس آر کانگریس ‘ تلگودیشم وغیرہ نے مرکز کی تائید کی جس کے نتیجہ میں اس بل کو منظوری حاصل ہوگئی ۔ یہ علاقائی جماعتیں اپنے مفاد اور سیاسی فائدہ کیلئے مرکزی حکومت کی تائید کر رہی ہیں یہ سوچے بغیر کہ کل ان کا بھی نمبر آسکتا ہے ۔
ایک کے بعد دیگرے مرکز کے کنٹرول کو مستحکم اور مضبوط کرنے کے اقدامات کئے جارہے ہیں جن سے وفاقی طرز حکمرانی کے اصولوں کی خلاف ورزی ہو رہی ہے ۔ کچھ جماعتیں ہیں جو اپنے اقتدار کو بچانے کیلئے اور تحقیقاتی ایجنسیوں کے خوف کا شکار ہوتے ہوئے ان اقدامات کی تائید کر رہی ہیں۔ انہیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آج کسی ریاست کو یا کسی جماعت کو نشانہ بنایا گیا ہے تو کل ان کا اپنا بھی نمبر آسکتا ہے ۔ سیاسی مفادات کی تکمیل کیلئے ملک کے دستوری ‘ وفاقی اور جمہوری اقدار اور اصولوں پر سمجھوتہ کئے بغیر اصول پسندی سے کام کرنے کی ضرورت ہے اور سبھی جماعتوں کو یہ بات سمجھنی چاہئے ۔