مرکز اور ریاستوں میں ٹکراؤ

   

وہ پھول کھل نہ سکا جو مرے مکان میں تھا
نہ جانے کون سا کانٹا تری زبان میں تھا
ملک میں وفاقی طرز حکومت میں مرکزی حکومت اور ریاستوں کے مابین اشتراک اور خیرسگالی تعلقات کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے ۔ مابعد آزادی مسلسل یہ روایت رہی ہے کہ مرکزی حکومتیں ریاستوں کے ساتھ تعاون کرتی رہی ہیں ۔ ان کو مشکل حالات میں مدد دی گئی ہے ۔ ان کی اہم امور پر رہنمائی کی گئی ہے ۔ ریاستوں میں جب کبھی نامساعد حالات رہے اور عوام کو مشکلات درپیش رہی ہیں مرکز کی جانب سے ان کی مدد کی جاتی رہی ہے ۔ ہر موقع پر سیاست کرنے سے گریز کرتے ہوئے سیاسی زور آزمائی کو انتخابات تک محدود رکھا گیا تھا ۔ یہ نہیں دیکھا گیا کہ مرکز میں کس کی حکومت ہے اور ریاست میں کس جماعت کو اقتدار حاصل ہے ۔ یہ روایت ہمارے وفاقی طرز حکومت کو مستحکم کرنے کی وجہ رہی ہے ۔ ریاستی حکومتیں بھی جب کبھی مسائل اور پریشانیاں درپیش رہی مرکزی حکومت سے رجوع ہوتی رہیں اور امداد کی خواہش کرتی رہی ہیں۔ مرکزی حکومت کی جانب سے بھی حالات کو دیکھتے ہوئے فراخدلانہ امداد کا سلسلہ بھی جا ری رہا تھا ۔ تاہم گذشتہ آٹھ برسوں میں ایسا لگتا ہے کہ یہ روایت دم توڑ رہی ہے ۔ حکومتوں کے مابین بھی سیاست نے اپنا اثر چھوڑنا شروع کردیا ہے ۔ ہر مسئلہ کو سیاسی رنگ دیا جا رہا ہے ۔ یا تو مذہبی تعصب سے حالات بگاڑے جا رہے ہیں یا پھر سیاسی وابستگی کو پیش نظر رکھتے ہوئے فیصلے کئے گئے ہیں۔ ان کی وجہ سے مرکز اور ریاستوں کے مابین تعلقات متاثر ہو کر رہ گئے ہیں۔ سیاسی مخالفین کو شخصی دشمن کی نظر سے دیکھنے اور ان کے ساتھ اسی طرح کا رویہ اختیار کرنے کی روایت عام ہوگئی ہے ۔ سیاسی اختلاف کو برداشت کرنے کا مادہ ختم ہوتا جا رہا ہے اور رواداری کو کہیں پس منظر میں ڈھکیل دیا گیا ہے ۔ ریاستوں کے ساتھ سلوک سیاسی وابستگی کی بنیاد پر روا رکھا جا رہا ہے ۔ جہاں کہیں حلیف جماعتوں کی یا خود اپنی پارٹی کی حکومت ہے ان کے ساتھ رویہ الگ ہے تو جہاں اپوزیشن اور سیاسی مخالفین کی حکومتیں ہیں ان کے ساتھ رویہ بالکل مختلف اختیار کیا جا رہا ہے ۔ یہ ہندوستان کی روایت نہیں رہی ہے اور اس کے نتیجہ میں عوامی مسائل کی یکسوئی متاثر ہونے لگی ہے ۔
کئی مواقع پر دیکھا گیا ہے کہ عوام کو درپیش مسائل پر بھی مرکز اور ریاست میں ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہو رہی ہے ۔ مرکزی حکومت اپنی مرضی کرنا چاہتی ہے تو ریاستی حکومتیں اپنے وجود کا احساس دلانے کوشاں ہیں۔ مرکزی حکومت کی جانب سے اپنی ریاستوں کیلئے فراخدلانہ امداد کا سلسلہ جاری ہے ۔ کئی پراجیکٹس کو سیاسی اعتبار سے ڈالا جا رہا ہے ۔ کئی پراجیکٹس کا افتتاح بھی اب سیاسی میلہ بن کر رہ گیا ہے ۔ جن ریاستوں میں انتخابات ہونے والے ہوں وہاں پراجیکٹس کی لائین لگائی جا رہی ہے اور جن ریاستوں میں اپوزیشن کی حکومتیں ہیں ان کے ساتھ غیرہمدردانہ رویہ اختیار کیا جا رہا ہے ۔ آفات سماوی کے معاملات میں امداد کی اجرائی بھی اسی سوچ کی تابع ہوگئی ہے ۔ اگر بی جے پی اقتدار والی ریاست میں کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو فوری طور پر فراخدلانہ امداد جاری کی جاتی ہے ۔ یہی صورتحال جب کسی اپوزیشن اقتدار والی ریاست میں پیدا ہوتی ہے تو امداد کی رقم کم ہوجاتی ہے یا پھر اس کی اجرائی میں مسائل کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ریاستوں میں شروع کئے گئے عوامی بہتری کے پراجیکٹس کو قومی پراجیکٹ کا درجہ دینے میں بھی اسی سوچ کا عمل دخل ہوگیا ہے ۔ اس کے نتیجہ میں ریاستوں اور مرکز کے تعلقات خوشگوار نہیں رہ گئے ہیں۔ مرکز ریاستوں پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہے تو ریاستیں مرکز کو شک کی نگاہ سے دیکھنے پر مجبور ہوگئی ہیں۔ ریاستی حکومتوں کی جانب سے مرکز پر اور مرکز کی جانب سے ریاستوں پر تنقیدیں شروع ہوگئی ہیں۔
کبھی مرکزی حکومت کی اسکیمات کو ریاستوں میں نافذ کرنے سے گریز کیا جاتا ہے تو کبھی ریاستی حکومتوں کی اسکیمات کو مرکز سے فنڈز کی اجرائی میں ٹال مٹول سے کام لیا جاتا ہے ۔ ہر کوئی ترقیاتی اقدامات کا سہرا اپنے سر باندھنے کی کوشش میں مصروف ہے ۔ اس سب کے دوران ملک کے وفاقی ڈھانچہ کو نقصان ہو رہا ہے ۔ عوامی فلاح و بہبود کے اقدامات پر اثر ہو رہا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مرکز اور ریاستوں کے مابین خوشگوار ماحول پیدا کرنے کے اقدامات کئے جائیں۔ سیاسی کو حکومتی کام کاج پر اثر انداز ہونے کا موقع نہ دیا جائے ۔ ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہوئے عوامی مسائل کی یکسوئی پر توجہ مرکوز کی جائے ۔