مزیددستوں کی آمد کے ساتھ سیاسی پارٹیوں نے وادی میں دیا انتباہ۔ ارٹیکل35اے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کریں

,

   

وادی میں اور مسلم اکثیریتی والی جموں او رکارگل کے اضلاعوں میں اس بات کا خوف ہے کہ ارٹیکل 35اے کو ہٹانے کا اقدام‘ جس کے سبب جموں کشمیر قانون سازی کو خود مختار بنایاگیاہے کہ مسلم اکثریتی والی ریاست کے جغرافیائی تبدیلی کی وجہہ بنے گا۔

سری نگر۔وادی کے مختلف حصوں میں بڑے پیمانے پر زائد فوجی دستوں کی تعیناتی کے سبب سیاسی لیڈران کو یہ خدشہ لاحق ہوگیاہے کہ ارٹیکل 35اے میں مداخلت کی حکمت عملی کایہ حصہ ہے۔ کئی علاقوں میں لوگ خوف کے عالم میں ضروری سامان کی خریدی کرتے ہوئے دیکھائی دئے۔

جموں کشمیر پولیس کے سینئر افسران نے زائد تعیناتی کو ”معمول“ کا حصہ قراردیا اور کہاکہ اس کا مقصد ریاست میں پہلے سے خدمات انجام دینے والے ساتھیوں کو راحت پہنچانا ہے۔

یونین ہوم منسٹری کے اعلامیہ کے بموجب نئی دہلی نے جمعہ کے روز دس ہزار زائد سپاہیوں کو کشمیر کے لئے روانہ کرنے کا فیصلہ کیاہے تاکہ”سی ائی کو مستحکم کیاجاسکے اور اس کے ساتھ نظم ونسق میں بھی مزید بہتری لائی جاسکے“۔

جموں کشمیر کے ایڈیشنل ڈی جی پی (لاء اینڈ آرڈر) منیرخان نے کہاکہ ”زائد دستوں کی درخواست دو سو کمپنیوں کے لئے کی گئی ہے تاکہ ان بٹالینوں کو لازمی ٹریننگ فراہم کی جاسکے“۔

ریاستی ڈی جی پی دلبر سنگھ نے کہاکہ زائد دستوں کی آمد نظم وضبط کی برقراری کے لئے ہے۔

جیسا ہی ان دستوں پر پہلا وفد سری نگر میں ہفتہ کے روز داخل ہوا وادی کی سیاسی پارٹیوں نے ”بلاوجہہ کی مشق“ کے خلاف مرکز کو انتباہ دیا۔

سابق وزیرسجا د لون جس کے متعلق سمجھا جاتا ہے کہ بی جے پی کے قریبی ہیں نے اپنے ایک بیان میں کہاکہ اس مہم جوئی کا مطلب ہندوستانیت پر یقین رکھنے والوں کے لئے دہوں تک کا تشدد اور مستقبل میں حملوں کے لئے سرمایہ کاری ہے“۔

ارٹیکل 35اے اور 370کے ساتھ مرکز کحی جانب سے چھیڑ چھاڑ کے خدشات میں اسمبلی الیکشن کے انعقاد میں تاخیر سے اضاف ہوگیا ہے اور مرکز نے اسی سال کی ابتداء میں ہی صدر راج کے نفاذ میں توسیع بھی کردی ہے۔

وادی میں اور مسلم اکثیریتی والی جموں او رکارگل کے اضلاعوں میں اس بات کا خوف ہے کہ ارٹیکل 35اے کو ہٹانے کا اقدام‘

جس کے سبب جموں کشمیر قانون سازی کو خود مختار بنایاگیاہے کہ مسلم اکثریتی والی ریاست کے جغرافیائی تبدیلی کی وجہہ بنے گا۔ایسے وقت میں دس ہزار زائد دستوں کی تعیناتی عمل میں ائی ہے جب ہزاروں نیم فوجی دستوں کے جواب امرناتھ یاترا کی نگرانی میں پہلے سے ریاست میں قیام کئے ہوئے ہیں۔

ایک 100کمپنیاں (دس ہزار جوان) مرکزی دستوں کے جموں کشمیر میں پلواماں میں 14فبروری کو پیش ائے دہشت گرد حملے کے بعد سے تعینات ہیں۔ اس حملہ میں سی آر پی ایف کے چالیس جوان مارے گئے تھے۔

جب پوچھا گیاکہ کیوں اتنی بڑی تعداد میں سپاہیوں کو بذریعہ ہوائی جہاز وادی میں لے جایاجارہا ہے تو اڈینشنل ڈی پی خان نے سنڈی ایکسپریس سے کہاکہ ”ہوائی جہاز سے لے جانے میں کم خرچ ہوتا ہے۔

ہائی وی (امرناتھ) یاترا کی وجہہ سے مصروف ہے اور جب دستے اتنی بڑی تعداد میں حمل ونقل کرتے ہیں تو ان پر حملہ بھی کئے جاسکتے ہیں‘۔حکومت نے وادی کی تمام بڑی مساجد کے اماموں کی تفصیلات بھی اکٹھا کی ہے۔

بعدازاں یہ بھی کہاگیا ہے حکومت مذکورہ امام حضرات کی مد دسے وادی میں مخالف منشیات مہم بھی چلائے گی۔سابق چیف منسٹر محبوبہ مفتی نے ٹوئٹ کے ذریعہ ”زائد فوجی دستوں کی تعیناتی کو ریاست کی عوام کے ذہنوں سے نفسیاتی کھلواڑ قراردیا‘’۔

قومی کانفرنس کے صدر عمر عبداللہ نے کہاکہ ”مرکز کو چاہئے کہ وہ سپریم کورٹ کا احترام کرے اور ”عوام کو ارٹیکل 35اے اور 370کو ہٹانے کی دھمکیاں دینے سے باز اجائے۔

وادی کے لوگ افواہوں کی وجہہ سے جو انتظامیہ کی جانب سے پھیلائی جارہی ہیں کافی پریشان ہورہے ہیں“۔سرکاری عہدیدارسے سیاست داں بننے والے شاہ فیصل نے کہاکہ ارٹیکل 370اور 35اے کے ساتھ کسی بھی قسم کی چھیڑ چھاڑ کشمیرمیں ایک نئے بیگانگی کو فروغ دے گی“