مستقل مزاجی اور جدید سائنس

   

ابوزہیر سید زبیر ہاشمی نظامی
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’مجھ کو اور لوگوں پر چار چیزوں میں فضیلت دی گئی ہے۔ سخاوت، شجاعت، قوت مردی اور مقابل پر غلبہ‘‘۔ آپﷺ اعلان نبوت سے قبل اور بعد کے زمانہ میں بھی صاحب وجاہت تھے۔ (نشر الطیب)
غزوۂ حنین کے موقع پر کفار کے تیروں کی بوچھار سے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم میں ایک قسم کا ہیجان، پریشانی اور تزلزل اور ڈگمگاہٹ پیدا ہو گئی تھی۔ مگر آپﷺ نے اپنی جگہ سے حرکت نہ فرمائی۔ حالانکہ گھوڑے پر سوار تھے اور ابو سفیان بن حارث رضی اللہ تعالی عنہ آپﷺ کے گھوڑے کی لگام پکڑے ہوئے تھے۔ کفار چاہتے تھے کہ آپﷺ پر حملہ کردیں۔ آپﷺ گھوڑے سے اُترے اور اللہ تعالی سے مدد طلب کی اور زمین سے ایک مٹھی بھر خاک لے کر دشمنوں کی طرف پھینکی تو کوئی کافر ایسا نہ تھا کہ جس کی آنکھ اس خاک سے نہ بھرگئی ہو۔ اس روز آپﷺ سے زیادہ بہادر، شجاع اور دلیر کوئی نہ دیکھی گیا۔ (مدارج النبوۃ)
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ’’اللہ کے راستے میں مجھے اتنا ڈرایا دھمکایا گیا کہ کسی اور کو اتنا نہیں ڈرایا گیا اور اللہ کی راہ میں مجھے اتنا ستایا گیا کہ کسی اور کو اتنا نہیں ستایا گیا‘‘۔
واقعہ طائف میں کفار کے پتھروں سے لہو میں تر بہ تر ہو گئے، نعلین مبارک پائے مبارک کے ساتھ جم گئے، لیکن واپس ہوئے تو فرمایا ’’میں ان لوگوں کے لئے کیوں بد دعاء کروں۔ اگر یہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو امید ہے کہ ان کی آئندہ نسلیں ضرور ایمان لانے والی ہوں گی‘‘۔ (رحمۃ للعالمین، اُسوہ رسول اکرمﷺ)
کفار ستاتے رہے، لیکن آپﷺ مستقل مزاجی اور عزم سے دعوت اسلام دیتے رہے۔ آپ نے کبھی مایوسی یا کم ہمتی سے کام نہیں لیا، بلکہ محنت، مستقل مزاجی اور مجاہدہ کے ذریعہ دین اسلام کی اشاعت میں لگے رہے۔ یہی نہیں، بلکہ دنیاوی کاموں میں بھی آپﷺ نے محنت کی۔ آپ نے مسجد نبوی کی تعمیر کا کام ہمت، استقامت اور مستقل مزاجی سے انجام دیا۔
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ’’اللہ کو وہی دین و اطاعت زیادہ پسند ہے جس کو مداومت کیا ساتھ کیا جائے‘‘۔کسی عمل کو مداومت کے ساتھ کرنے کے معنی یہ ہیں کہ آدمی مستقل مزاجی کے ساتھ اس کام کو برابر کرتا رہے اور کبھی ترک نہ کرے۔ دنیا کے کاموں میں بھی آدمی کو مستقل مزاج ہونا چاہیے، مستقل مزاجی کے بغیر دنیا کے کام بھی حسن انجام تک نہیں پہنچتے۔ لیکن دینی کاموں میں تو یہ انتہائی ناگزیر ہے، اس لیے کہ کوئی دینی کام کرتے کرتے آدمی اس کو چھوڑ بیٹھے، یا تسلسل اور پابندی نہ کرے یا اس کے کرنے میں پہلا سا جوش خروش باقی نہ رہے تو انتہائی فکر وتشویش کی بات ہے، یہ کوئی معمولی کوتاہی نہیں ہے ۔
صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کا جہاد، مسلمانوں کے معاملات اور مسلم حکمرانوں کی زندگیاں مستقل مزاجی، سخت جانی، ہمت اور استقامت سے بھری ہوئی ہیں۔اہل یورپ کا کہنا ہے کہ جس کام کی تکمیل کا تم نے ارادہ کرلیا ہے، شکست کے باوجود اسے ادھورا نہ چھوڑو۔ دنیا کا سارا فلسفہ صرف دو لفظوں میں پوشیدہ ہے اور وہ دو لفظ یہ ہیں: ’’برداشت‘‘ اور ’’عزم‘‘۔ لہذا انسان کو کبھی حوصلہ نہیں ہارنا چاہئے۔