مسلمانوں پر الزام اور مقدمے ان سے ناانصافی

   

این ۔ سی آستھانا
یہ کہنا غلط ہوگا اور ناانصافی ہوگی کہ ہندوستانی مسلمان اپنے کارناموں کے لئے قابل الزام ہیں۔ سماج کا کوئی بھی شعبہ ایسے کارنامے نہیں کرتا اور بالواسطہ طور پر اس بیان کی تائید کرتا ہے جو مسلمانوں کی موجودہ صورتحال کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہے اور جس کی وجہ سے انہیں نظرانداز کردیا گیا ہے۔ ایک پولیس عہدہ دار نجم الھدیٰ کا کہنا ہے کہ ہندوستانی مسلمان مایوس ہوگئے ہیں جبکہ رام مندر بھومی پوجن 5 اگست کو منعقد کیا گیا لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ایسا اس لئے ہے کیونکہ گزشتہ 300 سال سے عام مسلمان ایک پریشانی سے دوسری پریشانی کی سمت جاتے رہے ہیں تاکہ ان کی پریشانیوں کو تمدنی پیشرفت کا ایک حصہ سمجھا جائے۔ وہ اپنے آپ کو محروم محسوس کرتے ہیں ۔

گزشتہ 300 سال کا حوالہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ مابعد اورنگ زیب دور ہے جو 1707ء میں اُن کی وفات پر اختتام پذیر ہوا۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام عالمگیر کے بعد پیدا ہوا تھا لیکن یہ کہنا کہ ہندوستانی مسلمانوں نے ایک پریشانی سے دوسری حقیقی غلطیوں کی طرف سفر کیا غلط ہے۔ انجلی نرمل اور میں نے تفصیل سے اپنی تحقیق میں جو مغلوں کے کارناموں کے بارے میں کی گئی ہے کہا کہ مغلوں کا زوال اور انگریزوں کا عروج حقیقی بحران تھا جو ہندوستانی مسلمانوں کی زندگی میں آیا۔ اس کا آغاز غیر ملکیوں کے آدھی سے زیادہ دنیا پر قبضہ کے دوران پیدا ہوا جبکہ ہندوستانی آزادی دوبارہ حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کررہے تھے۔

جب انگریزوں نے اقتدار اپنے ہاتھوں میں لے لیا تو انہوں نے مسلمانوں کے حالت زار کو اس طرح بیان کیا جیسا کہ مشہور مورخ ولیم ویلسن ہنٹر نے کہا ہے کہ ’’یہ بات نہیں ہے کہ وہ سرکاری سرپرستی سے محروم ہوگئے بلکہ انہوں نے بتدریج اس کو کھو دیا۔ 100 سال پہلے حکومت پر ان کی اجارہ داری تھی اب وہ پورے انتظامیہ میں 1/123 کے معمولی تناسب میں ہے۔ مختصر یہ کہ مسلمان اب پست ترین مقام پر پہنچ چکے ہیں حالانکہ وہ سرکاری ملازمت کے اہل ہیں اور محنتی بھی ہیں لیکن انہیں سرکاری اعلامیوں میں نظرانداز کیا جاتا ہے۔
ہمیں اس بات کا خصوصی نوٹ لینا چاہئے کہ سرکاری ملازمتوں میں مسلم آبادی برائے ہندوستان کا انتہائی معمولی یعنی 1/123 کا تناسب ہے، جیسا کہ بیلکاسم بیلمکی نے اپنے مقالہ میں تحریر کیا ہے ’’برطانوی اقتدار کا ہندوستانی مسلمانوں کی برادری پر 19 ویں صدی میں اثر‘‘ میں تحریر کیا ہے کہ کم از کم جملہ آبادی کا ایک چوتھائی حصہ سرکاری ملازمتوں میں ہونا چاہئے تھا۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو منظم انداز میں نظرانداز کیا جارہا ہے۔
نجم الھدیٰ کہتے ہیں کہ آزاد ہند کو جوش و جذبہ کی تحریک ہندوستانی مسلمانوں کے جوش و جذبہ کی وجہ سے ملی ہے۔ حالانکہ دیگر ہندوستانی شہری بھی اس وقت موجود تھے۔ ایسا کہتے ہوئے وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آزادی کے بعد مسلمانوں کو نظرانداز کردیا گیا یہ ایک سنگین الزام ہے جو بالکل بے بنیاد ہے۔ بالواسطہ طور پر اس سے اس خلوص اور جدوجہد پر اثرات مرتب ہوتے ہیں کہ مسلمان اس ملک کے وفادار نہیں ہیں۔ یہ کہنا کہ ان کا تشخص یہ ہے کہ ان پر الزام عائد کیا جاتا اور ان پر مقدمہ دائر کئے جاتے ہیں یہ شدید ناانصافی ہے اور اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے کیا ایک فرقہ اپنا تشخص کھو بیٹھے گا۔ کونسا قانون جمہوریت کے اصول نے بنایا ہے جس کے تحت ایسا کرنے کو جائز قرار دیا جاسکتا ہے۔
ہندوستان میں لاکھوں افراد بقا کی جنگ لڑرہے ہیں۔ ان میں سے سب کو کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔ اس کے باوجود وہ اس حقیقت پر فخر کرتے ہیں کہ وہ انسان ہیں اور ایسے پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں جو کبھی بلند ترین مقام پر تھا اور برسر اقتدار تھا۔ وہ اپنی کامیابی پر بہت زیادہ فخر کرتے ہیں کیونکہ دیگر مذاہب میں یقین رکھنے والے ان کے ساتھی پوجا کرتے ہیں اور ان کی ازواج سماجی۔ مذہبی۔ تہذیبی اقدار اسی طرح کے رکھتے ہیں جیسے کہ ان کے ہیں۔

نجم الھدیٰ کا کہنا ہے کہ مسلمان جدید ترین تدریس کے ادارے قائم نہیں کرتے اس کے بجائے انہوں نے دینی مدرسے قائم کئے ہیں۔ ٹھیک ہے اگر ہم اس بات کو تسلیم بھی کرلیں کہ انہوں نے ایسا کرکے ایک غلطی کی ہے کیا یہ غلطی ہی تعصب کی واحد وجہ ہے جس کا انہیں سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ متعدد تحقیقی مقالوں بشمول سچر کمیٹی رپورٹ میں یہ سوال کیا گیا ہے کیا یہ مملکت کی ذمہ داری نہیں کہ ہر شہری کے لئے معیاری تعلیم کا انتظام کریں۔

یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مسجدیں اور دینی مدرسے ہند۔ نیپال سرحد کے پاس ابھر آئے ہیں، مثال کے طور پر یہ بہت قدیم ہیں اس کے باوجود یہ حقیقت موجود ہے کہ اگر ضرورت ہوتو اس کو قومی سلامتی کے لئے سنگین خطرہ سمجھا جاسکتا ہے۔ اتنے برسوں سے جبکہ ان کا مقابلہ کیا جارہا تھا کوئی ٹھوس اقدام کیوں نہیں کیا گیا۔ اس کے بارے میں ذرائع ابلاغ اور سرکاری محکمے خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔
اس کے علاوہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ ایسے مسلمانوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جو مخصوص قسم کا لباس پہنتے ہیں یا شدت پسند مذہبی ہیں اور عوامی دائرہ میں شامل نہیں ہیں۔ درحقیقت یہ الزام کے بعض افراد کو ان کے لباس کے اعتبار سے شناخت کیا جاسکتا ہے اور اگر ان کے انداز میں تبدیلی پیدا ہوتو اسے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ پیچیدہ سماج جس کے پیچھے کئی وجوہات ہوتی ہیں۔ تخمینہ کرنے کا قابل ہے۔ تاریخی نقطہ نظر سے اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ہندوستان میں اسلام خود ساختہ نظریہ کی بناء پر ابھر آیا ہے جیسا کہ نجم الھدیٰ کا کہنا ہیکہ زیادہ سے زیادہ ایک سنگین تعلیمی بحث کا موضوع بن سکتا ہے۔ ایسے اندیشے بھی موجود ہیں کہ جن کو سن کر بعض لوگ ناراض ہوسکتے ہیں اور اس کے باوجود آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ہندوستانی مسلمانوں پر شبہ کرنا، الزام عائد کرنا اور بغیر کسی ثبوت کے ان پر مقدمے دائر کرنا ان کے ساتھ ناانصافی اور غلط کام ہوگا۔