مسلمانوں کا معاشی بائیکاٹ

   

مہ و نجوم ستاروں کی بھیک دیتے رہے
زمیں کی گود میں پلتے رہے سیہ خانے
مسلمانوں کا معاشی بائیکاٹ
جس وقت سے ملک میں کورونا وائرس نے سر ابھارا ہے گودی میڈیا اور زر خرید اینکروں کی جانب سے مسلسل کوشش کی جا رہی تھی کہ اس وائرس کو بھی فرقہ وارانہ رنگ دیدیا جائے ۔ کورونا وائرس کے ابتدائی ایک ہفتے تک ایسا لگ رہا تھا کہ گودی میڈیا بیوہ ہوگیا ہے اور اس کے پاس زبان کھولنے کیلئے کوئی زہریلا مواد ہی نہیں بچا ہے اور یہ میڈیا ایک طرح سے بے چین ہو اٹھاتھا ۔ اسی وقت تبلیغی جماعت کے مسئلہ کو ہوا دی گئی اور ایسا محسوس ہوا کہ گودی میڈیا اور زر خرید اینکروں کی چاندی ہوگئی ہو ۔ انہوں نے مسلسل زہر اگلنا شروع کردیا تھا اور ہر پہلو سے یہی کوشش کی گئی کہ کسی طرح سے حکومت کی ناکامیوں ‘ عوام کے مسائل اور مشکلات کو موضوع بحث بنانے کی بجائے ہندو ۔ مسلم رنگ دیدیا جائے تاکہ ایک بار پھر فرقہ پرستی کا زہر عام ہوجائے ۔ عوام کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے بنیادی سوال کہیں محو ہوجائیں اور حکومت کو جہاں سکون سے اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کا موقع مل جائے وہیں اس گودی میڈیا کو تلوے چاٹنے کی پاداش میں شاباشی مل جائے ۔ انہیں زر خرید اینکروں اور گودی میڈیا والوں کی کوشش کا ہی اثر ہے کہ آج ہندوستان بھر میں ماحول ہندو ۔ مسلم ہوکر رہ گیا ہے ۔ حد تو یہ ہوگئی کہ ترکاری فروش بھی اب ہندو اور مسلمان ہوگئے ہیں۔ ان کی ٹھیلہ بنڈیوں پر جھنڈے لگادئے گئے ہیں اور سماج میں اتنا زہر گھولا گیا ہے کہ گاووںا ور دیہاتوں میں علی الاعلان مسلم ترکاری اور میوہ فروشوں کا داخلہ بند کردیا گیا ہے ۔ باضابطہ بورڈ آویزاں کردئے گئے ہیں اور حیرت تو انتظامیہ اور پولیس عہدیداروں پر جو س طرح کی فرقہ وارانہ حرکتوں کا کوئی نوٹ لینے کو تیار نہیں ہیں اور اگر کوئی ان کے علم میں یہ بات لائے تب بھی خاموشی اختیار کرنے ہی کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اس سے خود ان کی اپنی ذہنیت کی عکاسی ہوتی ہے یا پھر یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ کس طرح سے اپنے سیاسی آقاوں کو خوش کرتے ہوئے اپنی نوکریوں کو بچانے یا پھر ترقیاں اور من پسند عہدے حاصل کرنے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔ آج سارے ملک کے ماحول کو فرقہ وارانہ اعتبار سے پراگندہ کردیا گیا ہے ۔
پہلے تو گاووں اور دیہاتوں کے علاقوں میں مسلم ترکاری اور میوہ فروشوں کا داخلہ بند کردیا گیا ۔ ان کے خلاف زہر افشانی کرتے ہوئے عوام کے ذہنوں کو زہر آلود کیا گیا ۔ ایک دوسرے کے خلاف نفرتوں کو فروغ دیا گیا ۔ سماج میں ایک طرح کی لکیر کھینچ دی گئی اور اب کچھ کمپنیوں کی جانب سے جو اشیا تیار کی جا رہی ہیں ان پر بھی یہ واضح تحریر کی جا رہی ہے کہ ان اشیا کی تیاری میں کسی مسلمان ورکر کو شامل نہیں کیا گیا ہے ۔ معمولی معمولی باتوں پر اپنی سرگرمی دکھانے والی حکومت ایسا لگتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی اور ماحول کو زہر آلود کرنے کی کوششوں کی اپنی خاموشی کے ذریعہ حوصلہ افزائی کر رہی ہے ۔ یہ تاثر عام ہوتا جا رہا ہے کہ یہ حکومت ہی کا ایجنڈہ ہے جو ان زر خرید اینکروں اور گودی میڈیا کے ذریعہ پورا کیا جا رہا ہے ۔ اگر اس طرح کے ماحول کو مزید پروان چڑھایا گیا تو جو مشکلات آئندہ وقت میںپیش آسکتی ہیں ان کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا ۔ ہندوستان ایک ایسا سماج ہے جہاں ہر مذہب اور رنگ و نسل کے ماننے والے راست اور بالواسطہ طور پر ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا رول ادا کرتے ہیں۔ اگر سماجی سطح پر اس طرح کا زہر گھول دیا جائے تو پھر ہندوستان میں کثرت میں وحدت کا جو طرہ امتیاز رہا ہے وہ متاثر ہوکر رہ جائیگا اور ملک کی شبیہہ متاثر ہوجائے گی ۔ ویسے بھی عالمی سطح پر ہندوستان کے تعلق سے رائے عامہ تبدیل ہو رہی ہے اور یہاں جو واقعات پیش آ رہے ہیں ان پر عالمی سطح پر تنقیدیں ہو نی شروع ہوگئی ہیں اور ان کا نوٹ لیا جا رہا ہے ۔
مرکزی حکومت ہو یا پھر ریاستی حکومتیں جس کا جہاں دائرہ کار ہوتا ہے انہیں فوری حرکت میں آنے کی ضرورت ہے ۔ کورونا وائرس کے انتہائی مشکل ترین دور میں جہاں ہر کوئی اس وباء سے پریشان ہے مسلمانوں کے تعلق سے اس طرح کی زہر افشانی ملک کے مفاد میںہرگز نہیں ہوسکتی ۔ ہندوستان کا معاشرہ ہر مذہب کے ماننے والوں پر مشتمل ہے اور کسی ایک بھی مذہب کو اگر نشانہ بنایا جاتا ہے تو اس سے سارا معاشرہ متاثر ہوسکتا ہے ۔ ہمارے ملک کی ساکھ بیرونی ممالک میں متاثر ہوسکتی ہے اور بیرونی ممالک میں جو ہمارے اپنے ہندوستانی برسر کار ہیں ان کی ملازمتوں اور نوکریوں پر اثر ہوسکتا ہے ۔ اس حقیقت کو ذہن نشین رکھنے اور حکومتوں کی جانب سے ایسی حرکتوں کے خلاف سخت کارروائی اب ناگزیر ہوگئی ہے ۔