مسلمان چوکس رہیں،تلنگانہ میں مسلم ووٹنگ متاثر کرنے بی جے پی کا دو نکاتی ایجنڈہ

,

   

ووٹ کی تقسیم اور فرقہ وارانہ کشیدگی پر توجہ، بعض نام نہاد مسلمانوں کی مدد، بی جے پی کو شکست صرف کانگریس سے ممکن

حیدرآباد۔/10 اپریل، ( سیاست نیوز) ملک بھر میں نفرت اور فرقہ پرست سیاست کے ذریعہ تیسری مرتبہ برسراقتدار آنے بی جے پی کی مہم نے جنوبی ہند کی ریاستوں بالخصوص تلنگانہ پر اپنے اثرات مرتب کرنے شروع کردیئے ہیں۔ تلنگانہ جو فرقہ وارانہ تنظیموں اور پارٹیوں کیلئے کبھی بھی ہموار پلیٹ فارم ثابت نہیں ہوا لیکن گذشتہ دس برسوں میں سنگھ پریوار کی خاموش مہم نے اکثریتی طبقہ کو متاثر کیا ہے۔ لوک سبھا انتخابات کے پیش نظر بی جے پی تلنگانہ میں 10 نشستوں پر کامیابی کا نشانہ رکھتی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ پارٹی نے جن حلقوں کی نشاندہی کی ہے وہاں مسلم اقلیت کے قابل لحاظ ووٹ ہیں۔ بی جے پی اور اس کی ہمنوا تنظیموں نے ایک طرف نریندر مودی کے کارناموں کو عوام تک پہنچانے کا بیڑہ اٹھایا ہے تو دوسری طرف نفرت پر مبنی فلموں کی بڑے پیمانے پر تشہیر کے ذریعہ ووٹ بینک کو مستحکم کرنے کی منصوبہ بندی ہے۔ بی جے پی نے ہندو اکثریتی علاقوں میں گھر گھر پہنچ کر مہم کا آغاز کردیا ہے تاکہ کانگریس اور بی آر ایس کو اکثریتی طبقہ کے ووٹ منتقل نہ ہوں۔ سنگھ پریوار کی تلنگانہ پر غیرمعمولی توجہ صرف اس بات پر ہے کہ بھلے ہی مسلمان بی جے پی کو ووٹ نہ دیں لیکن ان کے ووٹ کانگریس اور بی آر ایس کے درمیان تقسیم ہوجائیں۔ ووٹ کی تقسیم کا راست طور پر بی جے پی کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ پارٹی نے مسلم اقلیت کے ووٹ تقسیم کرنے کیلئے بعض نام نہاد مسلم تنظیموں اور قائدین کی خدمات حاصل کی ہیں جو مسلمانوں میں بی آر ایس کے حق میں مہم چلائیں گے تاکہ سیکولر ووٹ کی تقسیم کو یقینی بنایا جاسکے۔ بی جے پی کے نشانہ پر موجود لوک سبھا نشستوں میں سکندرآباد، نظام آباد، عادل آباد، کریم نگر، محبوب نگر، ورنگل، ملکاجگری اور چیوڑلہ ایسی نشستیں ہیں جہاں مسلم اقلیت کے رائے دہندوں کی قابل لحاظ تعداد کسی بھی پارٹی کو کامیاب بنانے کے موقف میں ہے۔ ایسے حلقہ جات جہاں مسلمان فیصلہ کن موقف رکھتے ہیں وہاں سنگھ پریوار کی جانب سے دونکاتی حکمت عملی اختیار کی جارہی ہے۔ ایک طرف فرقہ وارانہ ایجنڈہ پر عمل آوری کے ذریعہ مسلم رائے دہندوں میں خوف کا ماحول پیدا کیا جائے گا تاکہ مسلم رائے دہندوں کا ووٹنگ فیصد گھٹ جائے۔ دیہی علاقوں میں متنازعہ موضوعات کو بنیاد بناکر فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دی جائے گی جس کا آغاز گذشتہ ماہ چنگی چرلہ سے ہوا ہے اور دیگر علاقوں میں بھی اس طرح کے واقعات پیش آنے کا اندیشہ برقرار ہے۔ حکومت نے فرقہ پرست طاقتوں پر قابو پانے کیلئے سخت اقدامات کا اعلان کیا ہے لیکن بعض علاقوں میں پولیس کے نرم رویہ کے نتیجہ میں فرقہ پرست طاقتوں کے حوصلے بلند ہورہے ہیں۔ دونکاتی حکمت عملی کے دوسرے ایجنڈے میں مسلم رائے دہندوں کو بی آر ایس کے حق میں ووٹ دینے کی ترغیب دینا ہے جس کے لئے مسلم قائدین اور تنظیموں کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔ دونوں ایجنڈے بی جے پی کی راست شمولیت کے بغیر ہی انجام دیئے جائیں گے تاکہ بی جے پی پر انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی کوئی شکایت نہ کرسکے۔ تلنگانہ کی 17 لوک سبھا نشستوں میں کانگریس پارٹی کو اقلیتوں کی تائید کا یقینی طور پر فائدہ ہوسکتا ہے بشرطیکہ مسلمانوں اور دیگر سیکولر طبقات کے ووٹ تقسیم نہ ہوں۔ اکثریتی طبقہ میں موجود سیکولر رائے دہندوں کو ہندوتوا طاقتیں رام مندر، کشمیر سے دفعہ 370 کی برخاستگی، سی اے اے، طلاق ثلاثہ پر پابندی جیسے اقدامات اور آنے والے دنوں میں متھرا اور کاشی کی مندروں کی بازیابی کا بھروسہ دلاتے ہوئے بی جے پی کے حق میں ووٹ دینے کی ترغیب دی جارہی ہے۔ بی جے پی کے ذرائع کے مطابق تلنگانہ میں بی جے پی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے اور اس کے لئے 8 تا 10 نشستوں پر کامیابی کوئی دشوار کن مرحلہ نہیں ہے۔ موجودہ صورتحال سے نمٹنے میں مسلمانوں کی غیر سیاسی تنظیموں کو اہم رول ادا کرنا چاہیئے۔ کانگریس پارٹی اقلیتوں کی تائید کے حصول کیلئے اپنے انداز میں مساعی ضرور کررہی ہے لیکن بی جے پی کی شدت پسند مہم کے پیش نظر کانگریس کیلئے بھی اقلیتوں کے ووٹ کی تقسیم کو روکنا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ مسلمانوں کی رضاکارانہ تنظیموں، جہد کاروں اور مخالف فرقہ پرست تنظیموں کو چاہیئے کہ وہ ابھی سے شعور بیداری مہم کے ذریعہ مسلمانوں کو ہندوتوا طاقتوں کے خفیہ ایجنڈہ سے واقف کرائیں تاکہ مسلمان بی جے پی کو کامیابی سے روک سکیں۔ کانگریس اور بی آر ایس دونوں کی مسلم ووٹ پر اپنی دعویداری موجود ہے اور دونوں اچھی طرح جانتے ہیں کہ ووٹ کی تقسیم کا فائدہ بی جے پی کو ہوگا۔ تلنگانہ کی موجودہ صورتحال میں صرف کانگریس پارٹی ہی بی جے پی کو شکست دینے کے موقف میں ہے لہذا مسلمانوں کو نہ صرف اپنے ووٹنگ فیصد میں اضافہ کرنا ہوگا بلکہ متحدہ طور پر کانگریس کے حق میں ووٹ کا استعمال کریں تاکہ تلنگانہ میں بی جے پی کو قدم جمانے کا موقع نہ ملے۔ اگر بی جے پی 8 تا 10 نشستوں پر کامیاب ہوتی ہے تو تلنگانہ میں بھی کرناٹک کی طرح وقفہ وقفہ سے متنازعہ موضوعات کے ذریعہ ماحول کو بگاڑنے کی کوشش کی جائے گی۔1