مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کم کرنے کی مساعی

   

اے کاش زمانہ کی رفتار بدل سکتی
تو صبح کا پرتو ہے دل شام کا سایہ ہے
مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کم کرنے کی مساعی
امریکہ نے عراق میں اپنے ٹھکانوں پر ایران کے میزائیل حملوں کے بعد ایران کے ساتھ بڑھتی کشیدگی کو کم کرنے کا دانشمندانہ فیصلہ کر کے خطہ میں آگ کو مزید بھڑکنے سے روکدیا ہے ۔ ایران نے بھی امریکہ کے ساتھ گذشتہ 10 دنوں سے جاری کشیدگی کو کم کردینے کے حق میں ہونے کا اشارہ دیا ۔ یہ ایک اچھی تبدیلی ہے ۔ صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے علاقائی بحران کو دور کرنے کے لیے مل بیٹھ کر مسئلہ حل کرنے کی جانب قدم اٹھایا ہے ۔ امریکی ڈیفنس سکریٹری مارک اسپر نے بجا طور پر کہا ہے کہ صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے نئے قدم اٹھاتے ہوئے امن کی ایک نئی سطح قائم کرنے کے لیے ایران سے کشیدگی کو دور کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ایران نے بات چیت کے لیے آمادگی ظاہر نہیں کی کیوں کہ تحدیدات کے ہوتے ہوئے ایران کسی بھی موضوع پر امریکہ سے بات چیت نہیں کرسکتا ۔ اگر امریکہ کو مذاکرات کرنی ہے تو اسے سب سے پہلے تحدیدات ہٹا لینے ہوں گے ۔ 3 جنوری کو ایران کے اہم فوجی جنرل قاسم سلیمانی کو ہلاک کردینے کے واقعہ کے بعد ایران نے امریکہ کے ساتھ کشیدگی کو ہوا دینے سے حتیٰ الامکان کوشش کی تھی ۔ امیر قطر کے حالیہ دورہ ایران اور صدر حسن روحانی سے بات چیت کے بعد ایران نے بھی امریکہ کے حکمنامے سے اپنے موقف کو نرم کردیا ۔ دونوں ممالک اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ کشیدگی مسئلہ کا حل نہیں ہے ۔ بلکہ کشیدگی کو دور کرتے ہوئے بات چیت کی میز پر آجائیں ۔ علاقائی بحران کا واحد حل مذاکرات اور کشیدگی کم کرنا ہے ۔ قطر کے دو جانب دوستانہ تعلقات میں امریکہ کے ساتھ بھی قطر کی دوستی مضبوط ہے تو ایران کے ساتھ بھی قریبی روابط ہیں ۔ ان تعلقات کو دونوں ملکوں کے درمیان ناراضگیوں اور تلخیوں کو دور کرنے میں امیر قطر کو مدد حاصل ہے ۔ عراق میں امریکہ کے دو ٹھکانوں کو حملہ کا نشانہ بنانا ، ایران کی بڑی کارروائی سمجھی جارہی ہے ۔ اس حملے کے بعد ہی امریکہ کو اپنی طاقت کی اہمیت کا اندازہ ہوگیا تھا ۔ اس لیے سہ ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے اس نے مذاکرات کوہی ترجیح دی ہے ۔ کشیدگی کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے ہی دونوں ممالک نے تلخیاں کم کرنے کا فیصلہ کیا ۔ ایران کے حملے میں امریکی سپاہیوں کی موت کے دعویٰ کو بھی ایران میں ایک اہم واقعہ کے طور پر دیکھا گیا ہے ۔ اس کشیدگی کے فوری بعد ایران کے موقف میں نرمی سے ساری دنیا کو راحت ملی ہے اور اسے ایک اچھی شروعات کہی جاسکتی ہے ۔ ساری دنیا کے عوام کو جنگ کے عواقب و نتائج کا اندازہ ہے ۔ اس لیے ان لوگوں نے پہلے ہی کشیدگی کو کم کرنے پر زور دیا ۔ دونوں مالک نے اگر خود کو مزید جارحیت سے بچالیا تو اس سے امن کے قیام کو یقینی بنایا جاسکے گا ۔ ادھر پاکستان نے بھی امریکہ کے ساتھ ایران کی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے اپنے طور پر مصالحتی کوششوں کا آغاز کیا ۔ اس سلسلہ میں وزیر خارجہ پاکستان شاہ محمود قریشی کا دورہ ایران خوش آئند بات ہے ۔ خطے کے امن و سلامتی کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر یہ کوشش ہونی چاہئے کہ باہمی مسائل کا پرامن حل تلاش کیا جائے ۔ مشرق وسطیٰ میں ہر وقت بحران کی کیفیت پیدا کرنا بھی کسی بھی ملک کے لیے مناسب بات نہیں ہے ۔ مشرق وسطیٰ کے بحران کی وجہ سے کئی ممالک متاثر ہوتے ہیں ۔ ایران کو اس طرح بحران کے وقت میں صبر و تحمل سے کام لیناچاہئے ۔ ایران پہلے ہی سے امریکہ کی پابندیوں کا سامنا کررہا ہے ۔ نیوکلیر ہتھیاروں کو پھیلاؤ کو روکنے کے لیے بنائے گئے قانون پر بھی عمل پیرا ہے ۔ مشرق وسطیٰ میں تنازعہ کا بڑھتا خطرہ اگر کم کردیا جائے تو انسانی زندگیوں کا نقصان گھٹ جائے گا ۔ امریکہ میں بھی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے خلاف ہونے والی تنقیدوں نے ایران کے موقف کو مستحکم کردیا ہے ۔ ٹرمپ کے نقادوں نے ان پر بین الاقوامی قوانین توڑنے کا الزام عائد کیا ہے ایسے میں ٹرمپ کے لیے اپنا موقف نرم کر کے دکھانا ضروری ہے ۔ امریکہ میں جو بھی صدر آتا ہے اس کے فیصلہ پر خود امریکیوں میں ناراضگی پائی جاتی ہے اور یہ امریکی تاریخ کا حصہ رہی ہے ۔ سابق صدر نشین کے خلاف امریکی عوام کی رائے کو مضبوطی حاصل ہوئی تھی ۔۔