مصائب میں صبر و تحمل ہی اصل بہادری: حضرت امام حسنؓ

   

حبیب محمد بن عبداللہ رفیع المرغنی مکاوی
حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۱۵رمضان المبارک ۳ھ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آپؓ بڑے صاحبزادے نواسۂ رسول کریم ﷺ ہیں ۔ آپ بہت متقی و پرہیزگار اورمسلمانوں کی آپسی اختلاف و انتشار اور جھگڑوں سے بہت آزردہ رہتے اور ان چیزوں سے آپ نفرت کرتے تھے، اور برملا اس کا اظہار بھی کرتے تھے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت کے بعد کچھ عرصہ خلافت کے امور بھی سنبھالے، مگر جلد ہی حضرت امیر معاویہؓ سے صلح کرکے متوقع خانہ جنگی کو ٹال دیا۔تاریخ اسلام میں آپؓ کایہ کارنامہ سنہری حروف سے لکھا گیا۔حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرنے سے آپ کی استقامت فی الدین کا پتہ چلتا ہے، آپ نے اسلام کی سربلندی کے لئے ایسی قربانیاں دی کہ زمانہ میں اسکی مثال نہیں ملتی، اور آپ کی تواضع وجذبہ ایثار کا نتیجہ ہے کہ اُس زمانہ میں مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں میں اتحاد قائم ہوا ۔آپؓ نے حضرت امیر معاویہؓ سے جن شرائط پر صلح کی اُن میں سب سے اہم یہ ہیں کہ حضرت امیرمعاویہ ؓ حکومتِ اسلام میں کتاب خدااور سنتِ رسول پر عمل کریں گے اور انھیں اپنے بعد کسی کو خلیفہ نامزد کرنے کا حق نہ ہوگا۔ شام وعراق وحجازویمن سب جگہ کے لوگوں کے لیے امان ہوگی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اصحاب اور چاہنے والے جہاں بھی ہیں اُن کے جان ومال اور ناموس واولاد محفوظ رہیں گے ۔ اور امیر معاویہ ؓحسن ابن علیؓ اور ان کے بھائی حسین ابن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور خاندانِ رسول میں سے کسی کو بھی کوئی نقصان پہنچانے یاہلاک کرنے کی کوشش نہ کریں گے نہ خفیہ طریقہ پر اور نہ اعلانیہ اور ان میں سے کسی کو کسی جگہ دھمکایا اور ڈرایا نہیں جائے گا۔

حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو تقریباً اٹھ برس اپنے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سایہ عاطفت میں رہنے کا موقع ملا۔ حضور اکرم ﷺ آپؓ سے بے انتہا محبت فرماتے تھے۔ اکثر حدیثیں محبت اور فضیلت کی حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ میں مشترک ہیں۔ مثلاً ’’حسنؓ وحسینؓ جوانانِ بہشت کے سردار ہیں‘‘ ۔ ’’خداوندا میں ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں تو بھی ان کو محبوب رکھنا‘‘۔
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’حسنؓ میںمیرا رعب وداب اور شان سرداری ہے اور حسینؓ میں میری سخاوت اور میری جرات ہے ‘‘۔ شان سرداری گویامختصر سالفظ ہے مگر اس میں بہت سے اوصاف وکمال کی جھلک نظر آرہی ہے ۔ اس کے ساتھ مختلف صورتوں سے رسول کریم نے بحکمِ خدا اپنے مشن کے کام میں ان کو اسی بچپن کے عالم میں شریک بھی کیا جس سے ثابت ہوا کہ حضور اکرم ﷺ اپنے بعد بمنشا الٰہی حفاظت اسلام کی مہم کو اپنے ہی اہلیبت کے سپرد کرنا چاہتے ہیں ۔ اس کاایک موقع مباہلہ کے میدان میں ظاہر ہوا جس میں حضرت حسن ؓبھی اپنے ناناکے ساتھ ساتھ تھے۔

رسالتماب ﷺ کے دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد امام حسن ؓ اس مسرت اور اطمینان کی زندگی سے محروم ہوئے ۔ نانا کی وفات کے تھوڑے ہی دن بعد امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنی مادرِ گرامی حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات کا صدمہ اٹھانا پڑا۔ اب حضرت امام حسن ؓ کیلئے گہوارہ تربیت اپنے مقدس باپ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ذات تھی ۔حضرت امام حسنؓ اسی دور میں جوانی کی حدوں تک پہنچے اور کمال شباب کی منزلوں کوطے کیا ۔پچیس برس کی خانہ نشینی کے بعد جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو خلیفہ منتخب کیا گیا اور اس کے بعد جمل , صفین اور نہروان کی لڑائیاں ہوئیں تو ہر ایک جہاد میں حضرت امام حسنؓ اپنے والد بزرگوار کے ساتھ ساتھ بلکہ بعض موقعوں پر جنگ میں آپؓ نے کار نمایاں بھی دکھلائے۔ آپ کے مختصر ارشادات پیش ہیں:

٭ اعلیٰ درجہ کی دانائی صرف تقویٰ ہے۔٭ کم عقل اور انسانی کمزوری بداخلاقی اور بد اعمالی ہے۔ ٭ مصائب میں صبر و تحمل ہی اصل بہادری ہے۔٭ پڑوسی کی ضروریات کا خیال رکھنا عین ثواب ہے۔ ٭اپنے تمام امور اللہ پر چھوڑدو، کیونکہ اللہ بہترین بدلے دینے والا ہے۔ ٭ اپنی ضروریات کی تکمیل کیلئے کسی پر تکیہ نہ کرکے ہی تم اچھی زندگی گذار سکتے ہو۔ ٭ حاجت مند کی جائز ضرورت کو پورا کرنا ایک ماہ کے اعتکاف سے افضل ہے۔ ٭ جو لوگ تمہارے دوست بننا چاہیں ان سے مساویانہ دوستی کرو۔ ٭ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں، جس قدر ہو دوسروں کے کام آؤ۔ ٭ جس کا آج کا دن دینی اعتبار سے کل گزشتہ کی طرح ہے تو وہ دھوکے میں ہے اور جس کا آج کا دن کل آئندہ سے بہتر ہے یعنی کل آئندہ میں اس کی دینی حالت آج سے خراب ہوگئی تو وہ سخت نقصان میں ہے۔٭ یہ جان لو کہ حلم اور برد باری زینت ہے اوروعدہ پوراکرنا مردانگی ہے اورجلد بازی بے وقوفی ہے اورسفر کرنے سے انسان کمزور ہوجاتا ہے اورکمینے لوگوں کے ساتھ بیٹھنا عیب کا کام ہے اور فاسق فاجر لوگوں کے ساتھ میل جول رکھنے سے انسان پر تہمت لگتی ہے۔٭ لوگ چار قسم کے ہوتے ہیں ایک تو وہ جسے بھلائی میں سے بہت حصہ ملا لیکن اس کے اخلاق اچھے نہیں، دوسرا وہ جس کے اخلاق تو اچھے ہیں لیکن بھلائی کے کاموں میں اس کا کوئی حصہ نہیں،تیسرا وہ جس کے نہ اخلاق اچھے ہیں اور نہ بھلائی کے کاموں میں اس کوئی حصہ ہے،یہ تمام لوگوں میں سب سے بُرا ہے،چوتھا وہ جس کے اخلاق بھی اچھے ہیں اور بھلائی کے کاموں میں اس کا حصہ بھی خوب ہے یہ لوگوں میں سب سے افضل ہے۔٭ اچھا سوال آدھا علم ہے۔ ٭ ایک مرتبہ آپ سے خاموشی کی حقیقت کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا:خاموشی جہالت کو چھپانے کا آلہ ہے،عزت کی حفاظت کا ذریعہ ہے،خاموش رہنے والا راحت واطمینان میں رہتا ہے ٭ جو شخص اللہ تعالی کی طرف سے طے کردہ حالت پر راضی ہوجائے گا وہ اس کے علاوہ کسی اورحالت کا متمنی نہ ہوگا،جو اللہ تعالی نے اس کیلئے پسند کی ہے۔ ٭ اے ابن آدم!اللہ تعالی کی حرام کردہ چیزوں سے اجتناب کر توعبادت گزار بن جائے گا،اللہ تعالی کی تقسیم سے راضی رہ تو مالدار بن جائے گا،جو تیرے ساتھ اچھا برتاؤ کرے تو بھی اس کے ساتھ بھلائی کرتوسچا مسلمان بن جائے گا،لوگوں سے ویسا معاملہ کر جیسا تو اپنے لئے پسند کرتا ہے عادل بن جائے گا۔ ٭ جس میں عقل نہیں اسے ادب حاصل نہیں ہوسکتا،جس میں ہمت وکوشش کا جذبہ نہیں وہ محبت حاصل نہیں کرسکتا،جس میں دین نہیں اس میں حیاء باقی نہیں رہ سکتی۔ ٭عقل کی بنیاد لوگوں کے ساتھ حسن معاشرت ہے اورعقل کے ذریعے دونوں جہان میں کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔٭لوگوں کی ہلاکت تین چیزوں میں ہے: (۱) تکبر (۲)حرص(۳)حسد۔تکبر میں دین کی ہلاکت ہے اوراسی نے ابلیس کو ملعون بنایا،حرص ولالچ نفس کی دشمن ہے انہی کی وجہ سے حضرت آدم علیہ السلام کو جنت سے نکالاگیا، حسد برائی کی بنیاد ہےاسی کی وجہ سے قابیل نے ہابیل کا قتل کیا۔ ٭ علم حاصل کرو!اگر اسے یاد کرنے کی طاقت نہ ہو تو لکھ لو اوراپنے گھر میں رکھ لو۔ ٭ رزق ہمیشہ اللہ تعالی سے طلب کرو؛ کیونکہ اللہ کے سوا کوئی رزق دینے کی طاقت نہیں رکھتا،جو شخص یہ گمان کرتا ہے کہ لوگ اسے روزی دے سکتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اللہ تعالیٰ پر اعتماد نہیں کیا اورجو یہ گمان کرتا ہے کہ وہ اپنی محنت سے اپنی روزی کماتا ہے تو یہ شخص بہت جلد پستیوں میں گرجائے گا۔
(کنزالعمال،الحسن والحسین،سیر أعلام النبلاء)