مضبوط اپوزیشن لیڈر کی کمی

   

توڑ ڈالوں کیوں نہ دُنیا خود بہت ٹوٹا ہوں میں
کانچ کے بازار میں پتھر لئے بیٹھا ہوں میں
مضبوط اپوزیشن لیڈر کی کمی
لوک سبھا میں ایک مضبوط اپوزیشن لیڈر نہ ہونا سب سے بڑی بدبختی کی بات ہے ۔ کانگریس کو یو پی اے کے لیڈر کی حیثیت سے ایک قائد ایوان مقرر کرنے میں ناکامی ہوئی ہے ۔ لوک سبھا انتخابات سے قبل اپوزیشن کی اتحادی پارٹیوں نے 92 ارکان پارلیمنٹ کی اکثریت کے ساتھ اتحاد کرتے ہوئے حکومت سازی کے دعویٰ کو جائز قرار دیتی تھیں اب وہی پارٹیاں ایوان پارلیمنٹ میں اپنا اپوزیشن لیڈر منتخب کرنے میں غیر متحد دکھائی دیتی ہیں ۔ خود اپوزیشن نے غیر جمہوری طرز عمل اختیار کیا ہے تو پھر حکمراں اتحاد کو الزام نہیں دیا جاسکتا ۔ اپوزیشن پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے قائدین ہی دل بدلی کے ذریعہ بی جے پی میں شامل ہوتے جارہے ہیں ۔ بی جے پی جس طریقہ سے اپنے دامن کو بچاتے ہوئے دوسری پارٹیوں کے قائدین کو پارٹی میں شامل کرتے جارہی ہے اسے ہماری جمہوریت کے سیاہ ترین مرحلہ سے تعبیر کیا جارہا ہے ۔ تلگو دیشم کے چار راجیہ سبھا ارکان نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی تو ۔ آیا رام اور گیا رام کی سیاست کی حوصلہ افزائی کرنے والی پارٹی کون ہے تو ہر تجربہ کار سیاستداں کی انگشت کانگریس کی جانب ہی ہوگی ۔ ماضی میں انحراف کی سیاست کی کانگریس نے ہی حوصلہ افزائی کی تھی اب یہ عمل بی جے پی کرتے جارہی ہے لیکن یہاں سوال اخلاق اور اقدار کی سیاست کا ہے جس کی دہائی بی جے پی ہی سب سے زیادہ دیتے آرہی ہے ۔ اب اس نے ہی انحراف کی سیاست کی حوصلہ افزائی کی ہے ۔ پارلیمنٹ یعنی لوک سبھا میں کوئی اپوزیشن قائد نہیں ۔ راجیہ سبھا میں بھی اپوزیشن کا موقف کمزور ہے تو حکمراں پارٹی کی حیثیت سے بی جے پی اپنی من مانی کا کھلامظاہرہ کرے گی ۔ جمہوریت نام کو رہ جائے گی ۔ اپوزیشن لیڈر کی اہمیت کیا ہوتی ہے اس کا مشاہدہ مغربی ملکوں میں دیکھا جاتا ہے ۔ برطانیہ میں جمہوریت کی بنیادیں اتنی مضبوط ہیں کہ منتخب وزیراعظم کے خلاف اگر شکایات پائی جاتی ہیں تو اس عہدہ کے لیے اپوزیشن لیڈر کو نامزد کیا جاتا ہے ۔ لیکن ہندوستان میں جمہوریت کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہندوستان کی جمہوری روایات کو پامال کردیا جارہا ہے ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ خود اپوزیشن پارٹیوں نے اپوزیشن لیڈر کے انتخاب کے تعلق سے اپنا موقف واضح نہیں کیا ہے ۔ صدر کانگریس کی حیثیت سے راہول گاندھی نے اپنے استعفیٰ کی پیشکش کی ہے تو پھر قائد اپوزیشن کی ذمہ داری کس کے حوالے ہوگی ۔ لوک سبھا میں عددی کھیل نے آج کانگریس کو بہت کمزور مقام پر لاکھڑا کیا ہے ۔ پارٹیاں تبدیل کرنے کا ہر ایک کو حق حاصل ہے ۔ جب کوئی لیڈر صبح ایک پارٹی تبدیل کرتا ہے تو وہ شام تک تیسری پارٹی میں شامل ہوجاتا ہے ۔ ایسے قائدین کو عوامی زندگی میں وقار و احترام کا کچھ خیال نہیں رہتا اور نہ ہی انہیں کسی قسم کی فکر ہوتی ہے ۔ بی جے پی کی سیاسی ترجیحات بھی یہی ہیں کہ وہ عوامی زندگی میں وقار و احترام عزت کو یکسر نظر انداز کرتے آرہی ہے کیوں کہ اسے ہر انتخابات کے بعد عددی طاقت حاصل ہورہی ہے ۔ بی جے پی نے ایک طرف ایک ملک ایک انتخاب کا نعرہ تو دیا ہے لیکن اصل میں وہ ایک ملک ایک پارٹی کی تھیوری پر کاربند ہے ۔ اس لیے نریندر مودی اور امیت شاہ نے کانگریس مکت بھارت پر ہمیشہ زور دیا ہے ۔ اب یہ دونوں اپوزیشن مکت بی جے پی چاہتے ہیں ۔ وزیراعظم نریندر مودی نے سب کا وشواس حاصل کرنے کے نعرے کے ساتھ اپنے قبل ازیں دئیے گئے نعرے سب کا ساتھ سب کا وکاس کے ساتھ سب کا وشواس کا اضافہ کردیا ہے ۔ سب کا وشواس کے نعرے کی ضرورت کیوں محسوس کی جارہی ہے یہ غور طلب ہے کیوں کہ بی جے پی نے دھاندلیوں کے ذریعہ اقتدار حاصل کیا ہے تو اسے اندر ہی اندر یہ احساس ہورہا ہے کہ اس نے سب کا وشواس حاصل نہیں کیا ہے اس لیے پرانے نعرے سب کا ساتھ سب کا وکاس کے ساتھ سب کا وشواس جوڑ دیا جائے ۔ بی جے پی کا یہ نعرہ ہی ظاہر کررہا ہے کہ بی جے پی اندر ہی اندر سب کے وشواس سے محروم ہورہی ہے ۔ ہندوستان کی جمہوری سیاست کو زعفرانی رنگ دینے والی پارٹی نے ہی ہندوستانی پارلیمنٹ کی تاریخ میں اپوزیشن کو ہی صفحہ ہستی سے مٹانے کی ٹھان لی ہے تو یہ ایک بڑے سانحہ سے کم نہیں ہے ۔۔