مقامِ شیرِ خدا حضرت علی ؓبزبان مصطفیٰ ﷺ

   

حبیب محمد بن عبداللہ رفیع المرغنی

فاتحِ زمن، خيبر شكن، مشكل كشا، بابِ شهر علم ، دروازه دار حكمت، حضرت علي بن ابي طالب رضي الله عنه عام الفيل سے تقريباً ۲۹ برس بعد اور اعلانِ نبوت سے ۱۰ سال قبل ۱۳رجب المرجب بروز جمعه حرمِ اقدس كے صحنِ بابركت ميں پيدا هوئے۔حضرت موليٰ نے حضور مولي الكل سيد الرسل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كے كنارِ اقدس ميں پرورش پائي ، حضور كي گود ميں هوش سنبھالا، آنكھ كھلتے هي محمد رسول الله ﷺكا جمالِ جهاں آرا ديكھا، حضور هي كي باتيں سنيں، عادتيں سيكھيں ۔ حضرت علي رضي الله عنه نے اپني زندگي كے شب و رو ز حضور ﷺ كي رفاقت و حمايت كے ليے وقف كر ديئے ۔ آپ كي جلوت و خلوت كي مجلسوں اور دعوت و تبليغ كي سرگرميوں ميں ساتھ رهے ، كاتبِ وحي بھي رهے ۔ حضور ﷺ سے براهِ راست اور زياده سے زياده حصولِ علم و تربيت كے جو مواقع شیرِ خداحضرت علي رضي الله عنه كو ميسر آئے ، كسي دوسرے صحابي كو ميسر نه آسكے ، اسي ليے ’’باب مدينۃ العلم‘‘ كهلائے۔
حضرت علي رضي الله عنه كي شان و شوكت ، قدر و منزلت، زهد و تقويٰ، علم و عمل، همت و شجاعت، صبر و شكر، فضل و كمال اور جمله اوصاف و سيرت پر تاريخ كے زريں اوراق شاهد وعادل هيں۔ آياتِ قرآنيه، احاديثِ نبويه، آثار مرويه آپؓ كي زندگي كا آئينه هيں ۔ متعدد آيات و احاديث آپؓ كي شان ميں وارد و نازل هوئيں ۔ ان ميں سب سے زياده شهرت جس حديث كو ملي وه هے: أَنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ وَ عَلِيٌّ بَابُهَا هر زمانے كے علما، خطبا، فقها، صوفيه، مصنفين، سيرت نگار، مورخين نے اس حديث كو بيان كيا،اپني كتابوں ميں اس سے استدلال كيا اور ايك جهانِ علم و فن نے اسے قبول كيا ۔
علی کرم اللہ وجہہ شہر علم و حکمت کا دروازہ
ایک حدیث عام ہے کہ تاجدار کائنات حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ مکمل حدیث یوں ہے :’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا میں شہر علم ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں پس جو کوئی علم کا ارادہ کرے وہ دروازے کے پاس آئے‘‘۔( المعجم الکبير لطبراني، مستدرک للحاکم، مجمع الزوائد) حدیث پاک کا دوسرا حصہ کہ پس جو کوئی علم کا ارادہ کرے وہ دروازے کے پاس آئے، بہت کم بیان کیا جاتا ہے۔ ارشاد کا مدعا یہ ہے کہ جس کو مصطفیٰ ﷺکا علم درکار ہے وہ علیؓ کے دروازے پر آئے یہ در چھوڑ کر کوئی علم مصطفیٰ ﷺکی دہلیز کو نہیں پا سکتا۔
اسی طرح ایک روایت ہے کہ :’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں‘‘۔(جامع الترمذی، کنز العمال)
فرمایا رسول محتشم نے :’’حضرت عمار بن یاسر سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا جو شخص مجھ پر ایمان لایا اور جس نے میری نبوت کی تصدیق کی میں اس کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ علی کی ولایت کو مانے جس نے علی کی ولایت کو مانا اس نے میری ولایت کو مانا اور جس نے میری ولایت کو مانا اس نے اللہ عزوجل کی ولایت کو مانا‘‘۔
حضور اکرم ﷺنے فرمایا جو شخص قیامت تک مجھ پر ایمان لایا اور جس نے میری نبوت کی تصدیق کی میں اس کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ علی کی ولایت کو مانے۔ علی وصیت مصطفیٰ ﷺہے، ولایت علی وصیت مصطفیٰ ﷺہے، حضور علیہ السلام نے فرمایا جس نے علی کی ولایت کو مانا اس نے میری ولایت کو مانا جس نے میری ولایت کو مانا اس نے اللہ کی ولایت کو مانا، جس نے علی سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی۔ جس نے مجھ سے محبت کی اس نے خدا سے محبت کی، جس نے علی سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے مجھ سے بغض رکھا اس نے اللہ سے بغض رکھا۔
ولایت علیؓ کے فیض کے بغیر نہ کوئی ابدال بن سکا اور نہ کوئی قطب ہوسکا۔ ولایت علیؓ کے بغیر نہ کسی کوغوثیت ملی اور نہ کسی کو ولایت، حضرت غوث الاعظم جو غوث بنے وہ بھی ولایت علیؓ کے صدقے میں بنے، امامت، غوثیت، قطبیت، ابدالیت سب کچھ ولایت علیؓ ہے، اس لئے آقائے کائنات ﷺنے فرمایا: ’’حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ نے فرمایاجس نے علی کو گالی دی اس نے مجھ کو گالی دی‘‘۔(مسند احمد بن حنبل، المتدد، للحاکم)اس سے بڑ ھ کردوئی کی نفی کیا ہوگی اور اب اس سے بڑھ کر اپنائیت کا اظہار کیا ہوگا کہ تاجدار کائنات ﷺنے فرمایا جس نے علی کو گالی دی وہ علی کو نہیں مجھے دی۔
طبرانی اور بزار میں حضرت سلمان سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺنے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’علی تجھ سے محبت کرنے والا میرا محب ہے اور تجھ سے بغض رکھنے والا مجھ سے بغض رکھنے والا ہے‘‘۔(المعجم الکبير للطبراني)
دونوں جہانوں کے سید
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺنے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھا اور فرمایا اے علی تو دنیا میں بھی سید ہے اور آخرت میں بھی سید ہے، جو تیرا حبیب (دوست) ہے وہ میرا حبیب ہے اور جو میرا حبیب ہے وہ اللہ کا حبیب ہے، جو تیرا دشمن ہے وہ میرا دشمن ہے اور جو میرا دشمن ہے وہ اللہ کا دشمن ہے اور بربادی ہے اس شخص کیلئے جو میرے بعد تجھ سے بغض رکھے‘‘۔(المستدرک للحاکم)بڑی واضح حدیث ہے فرمایا علی تو دنیا میں بھی سید ہے اور آخرت میں بھی سید ہے تیرا حبیب میرا حبیب ہے اور میرا حبیب خدا کا حبیب، تیرا دشمن میرا دشمن اور میرا دشمن خدا کا دشمن، آقائے دوجہاں ﷺولایت علی کو ولایت مصطفیٰ ﷺ قرار دے رہے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کیوں؟ یہ حدیث اس کی وضاحت کر رہی ہے۔
مسند احمد بن حنبل میں حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺنے ایک موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں تکرار کے ساتھ فرمایا :’’علی مجھ سے ہے میں علی سے ہوں میرے بعد وہ تمہارا ولی ہے‘‘۔(مسند احمد بن حنبل)اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت بھی ملاحظہ ہو وہ فرماتے ہیں کہ :’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ عرب کے سردار کو میرے پاس بلاؤ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ کیا آپ عرب کے سردار نہیں ہیں یارسول اللہ، آپ نے فرمایا کہ میں اولاد آدم کا سردار ہوں اور علی رضی اللہ عنہ عرب کے سردار ہیں‘‘۔ ( مستدرک للحاکم، مجمع الزوائد، کنزالعمال)