ملازمتوں پر مرکزی وزیر کا بیان

   

ایک ہی معنی نہیں رکھتی تمہاری ہر مہم
ایک گھبرا کر نہیں اور ایک شرما کر نہیں
ملازمتوں پر مرکزی وزیر کا بیان
ملک میں جس طرح کی معاشی سست روی چل رہی ہے اس کے نتیجہ میں ملازمتوں کا مسئلہ بھی سنگین صورتحال اختیار کرتا جا رہا ہے ۔ ویسے تو مودی حکومت نے اپنی پہلی معیاد ہی میں پانچ سال کے دوران دس کروڑ روزگار فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا تاہم وہ ایک کروڑ روزگار بھی فراہم نہیں کرپائی ۔ اب بھی یہ صورتحال سنگین ہوتی جار ہی ہے اور کئی شعبہ جات میں ملازمتوں میں تخفیف کاسلسلہ سا چل پڑا ہے ۔ چند مہینوں میں ہزاروں ملازمتیں ختم کردی گئی ہیںاور نئی ملازمتوں کے مواقع بھی گھٹتے جا رہے ہیں۔ کئی شعبہ جات ایسے ہیں جن سے ملازمین کو نکالا جا رہا ہے ۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ سرکاری شعبوں سے بھی ملازمین کی تخفیف کا عمل شروع ہوچکا ہے ۔ ان صورتحال میں ملک میںکافی تشویش پائی جاتی ہے اور عوام فکرمند ہیں۔ میڈیا میں بھی اس تعلق سے مسلسل تذکرے کئے جا رہے ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ مرکزی حکومت یہ بات قبول کرنے کو تیار ہی نہیں ہے کہ ملازمتوں کا کوئی مسئلہ واقعی درپیش ہے ۔ حکومت کے وزیر اور دوسرے ذمہ دار ملک میںمعاشی بحران یا سست روی کو بھی قبولکرنے کو تیار نہیں ہیں جبکہ حقیقی صورتحال خود سرکاری اعداد و شمار سے ظاہر ہوتی ہے اور یہ مرکزی حکومت ہی کے اعداد و شمار ہیں کہ ملک کی جملہ گھریلو پیداوار گذشتہ چھ سال میں سب سے کم ہو کر محض پانچ فیصد رہ گئی ہے ۔ جب جملہ گھریلو پیداوار متاثر ہوئی ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ ہر شعبہ میں گراوٹ درج کی جا رہی ہی ۔ تمام شعبہ جات کی شرح ترقی کی بنیاد پر ہی جملہ گھریلو پیدوار کی شرح کا تعین ہوتا ہے ۔ اب مرکزی وزیر آزادانہ چارچ سنتوش کمار گنگوار نے ملازمتوں کے مسئلہ کو ایک نیا رنگ دینے کی کوشش کی ہے ۔ انہوں نے شمالی ہند کے عوام کی صلاحیتوں پر سوال کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ملازمتوں کی کوئی کمی نہیں ہے اور جو کمپنیاں تقررات کرنا چاہتی ہیں انہیں شمالی ہند کے لوگوں میں صلاحیتوں کا فقدان دکھائی دیتا ہے ۔ شمالی ہند سے تعلق رکھنے والے افراد میں صلاحیتوں کی کمی ہے ۔ یہ در اصل حکومت کی ناکامی کو چھپانے کا ایک نیا طریقہ ہے اور عوام ہی کو نا اہل قرار دیدیا جارہا ہے ۔
جس وقت سے معاشی سست روی کے اشارے ملنے شروع ہوئے تھے اسی وقت سے کہا جا رہا تھا کہ ملازمتوں پر اس کا یقینی طور پر اثر مرتب ہوگا ۔ ریٹیل شعبہ جہاں متاثر ہوا ہے وہیں ہول سیل شعبہ جات پر بھی اس کا اثر ہوا ہے ۔ آٹوموبائیل شعبہ بند ہونے کے قریب پہونچ گیا ہے ۔ اس میں کمپنیوں میں جہاں ملازمین کی تخفیف ہوئی ہے وہیں کئی ریٹیل شورم بند کردئے گئے ہیں۔ اسی طرح مینوفیکچرنگ کا شعبہ بھی سب سے نچلی سطح پر پہونچ گیا ہے ۔ مینوفیکچرنگ میں بھی ملازمین کی تعداد خاطر خواہ ہوتی ہے اور جب اس کی شرح ترقی انتہائی کم ہوگئی ہے تو یقینی طور پر اس کے اثرات ملازمتوں پر پڑ رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق حکومت خود ریلوے محکمہ سے ایک لاکھ ملازمین کی تخفیف کا عمل شروع کرچکی ہے ۔ بی ایس این ایل کو پوری طرح سے ختم کیا جا رہا ہے اور اس محکمہ سے بھی ہزاروں ملازمین کی چھٹی کی جا رہی ہے ۔ اس کے باوجود حکومت اس حقیقت کا اعتراف کرنے کو تیار نہیں ہے کہ ملک میں ملازمتوں کا بحران پیدا ہوگیا ہے ۔ یہ سب کچھ معاشی سست روی کی وجہ سے ہی نہیں ہوا ہے بلکہ اس کیلئے حکومت کی پالیسیاں بھی ذمہ دار ہیں۔جو اقدامات حکومت کی جانب سے کئے جا رہے ہیں وہ معیشت میں نئی جان ڈالنے کیلئے کافی نہیں ہیں اور ان کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاروں میں بھی اعتماد کا ماحول پیدا نہیں ہو رہا ہے ۔ بیرونی سرمایہ کاری کی شرح بھی کم ہوتی جا رہی ہے ۔ ملک کی درآمدات اور برآمدات میں کمی درج کی جا رہی ہے ۔
بحران کی جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اس کا اعتراف کرنے اوراس کاسدباب کرنے اقدامات پر توجہ دینے کی بجائے حکومت نوجوانوں کی صلاحیتوں پر ہی سوال کرنے لگی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آج ساری دنیا ہندوستانی نوجوانوں کی صلاحیتوں کی معترف ہوتی جا رہی ہے ۔ حکومت کو ان وجوہات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے جن کی وجہ سے ملازمتوں کا بحران پیدا ہوگیا ہے ۔ نئی ملازمتیں پیدا نہیںہو رہی ہیں اور موجودہ ملازمتوںکی تعداد میں بھی گراوٹ آتی جا رہی ہے ۔ حکومت کو غلطیوں کو سدھارنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ اس طرح کی بہانہ بازیوں سے کوئی کام نہیں چلنے والا اور نہ عوام کو جو مشکلات درپیش آ رہی ہیں اور ان کا معیار زندگی جو متاثر ہو رہا ہے وہ بہتر نہیں ہوگا ۔ ملک کے نوجوانوں میں یقین رکھتے ہوئے حکومت کو ملازمت کے حقیقی مواقع فراہم کرنے کیلئے اقدامات کرنے ہونگے ۔