ملک میں کرونا وائرس کی وباء کو مسلمانوں سے جوڑنے کی سازش کوئی اور نہیں میڈیا کررہا ہے۔

,

   

قومی ذرائع ابلاغ کے پاس کرنے کے لئے اب کچھ نہیں ہے‘ لہذا کرونا وائرس کے بہانے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیاہے۔ اس کو روکنے کے لئے ملک کی عدالت عظمیٰ کو تک مداخلت کرنے کی ضرورت پڑ گئی ہے۔
حیدرآباد۔ ساری دنیاکرونا وائرس کے خوف میں دبے ہوئی ہے۔ چین سے لے کر امریکہ تک اس عالمی وباء کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ دنیا کی عظیم معیشت مانے جانے والے ممالک کرونا وائرس کے سامنے دو زانو ہوگئے ہیں۔

چین‘ امریکہ‘ برطانیہ‘ اسپین‘ اٹلی جیسے اڈوانس ممالک بھی سی او وی ائی ڈی 19کے سامنے بے بس دیکھائی دے رہے ہیں۔ لاکھوں لوگ اس وباء کی زد میں آکر ہلاک ہوگئے ہیں اور لاکھوں اس سے متاثر ہوکر زندگی او رموت کی جنگ لڑرہے ہیں۔

مگر ہندوستان میں ذرائع ابلاغ اور برسراقتدار بی جے پی حکومت کے قائدین کروناوائرس کا مذہب تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔بالخصوص قومی ذرائع ابلاغ کے پاس کرنے کے لئے اب کچھ نہیں ہے‘ لہذا کرونا وائرس کے بہانے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیاہے۔

اس کو روکنے کے لئے ملک کی عدالت عظمیٰ کو تک مداخلت کرنے کی ضرورت پڑ گئی ہے۔سکیولر ذہن کے حامل غیر مسلم اصحاب بھی میڈیا کی جانب سے چلائے جارہے ٹرائیل کی سختی کے ساتھ مذمت کی جارہی ہے۔

ہری دیو جوشی یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور ایڈیٹرس گلڈ س کے سابق جنرل سکریٹری نے اپنے ایک ٹوئٹ پر تبلیغی جماعت کے حوالے سے مسلمانوں کے خلاف کی جارہی زہر افشانی کی مذمت کی ہے۔

انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ”تبلیغی جماعت کو لے کر اتنی جھوٹی خبریں شائع ہوئی ہیں کہ ان کی مذمت کپیں پولیس نے کی ہے‘ تو کہیں ضلع انتظامیہ نے اور کہیں ریاستی حکومتوں نے اس کی مذمت کی ہے۔

تبلیغی جماعت کے لوگوں نے گناہ کیا‘ انتظامیہ نے لاپرواہی کرتا اور مولانا سعاد نے سراسر بے وقوفی کی۔ مگر جو نہیں ہوا اسے کیوں گھڑا او رمڑا جارہی ہے؟وہ بھی بے خوف ہوکر؟“۔اوم تھانوی نے اپنے اس ٹوئٹ میں کچھ نیوز کلپس بھی شیئر کئی ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قومی ذرائع ابلاغ جان بوجھ کر مسلمانوں کے شبہہ کو بگاڑنے کے لئے تبلیغی جماعت کے حوالے سے کرونا وائر س کا ذمہ دارہندوستانی مسلمانو ں کو ٹہرارہا ہے۔

حالانکہ سپریم کورٹ نے اس معاملہ میں مداخلت کرتے ہوئے فرضی نیوزوں پر روک لگانے کی ہدایتیں جاری کی ہے مگر جو کام میڈیا نے پچھلے 15دنوں میں کیاہے اس کا اثر آنے والے پندرہ سالوں تک بھی کم ہوتا نہیں دیکھائی دے رہا ہے۔

اوم تھانوی کے یہ ٹوئٹ کافی وائیرل ہورہا ہے۔ چارہزار سے زائد لوگوں نے اس کو پسند کیاہے اور دوہزار سے زائد لوگوں نے اس کو ری ٹوئٹ کیاہے