ملک کے جمہوری ادارے

   

ملک میں گذشتہ چند برسوں سے جمہوری اداروں پر ایک مخصوص تسلط کو یقینی بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ ویسے تو اس طرح کے عزائم بہت پہلے سے ظاہر کئے جاتے رہے ہیںلیکن ان عزائم پر عمل آوری کا سلسلہ چند برسوں سے شروع ہوا ہے ۔ مرکز میںنریندرمودی حکومت کے تشکیل پانے کے بعد سے یہ کوششیںشدت کے ساتھ شروع ہوگئی ہیں۔ ایسی کوششوںکو ایسا تاثر عام ہے کہ حکومت کی بھی بالواسطہ تائید حاصل ہے ۔ اس طرح کی باتیںکرنے والوں کے خلاف حکومت یا نفاذ قانون کی ایجنسیوں کی جانب سے کوئی کارروائی بھی نہیںکی جاتی اور نہ ہی ان پر لگام کسنے کیلئے کسی طرح کے اقدامات کئے جاتے ہیں۔ حکومت کی اس خاموشی کے نتیجہ میںان عناصر کے حوالے بلند ہوگئے ہیں جوعوامی زندگی میں ملک کے قوانین اور دستوری گنجائشوں کی خلاف ورزی کرنے میںکوئی عار محسوس نہیںکرتے ۔ اس کے علاوہ حکومت بھی ایسالگتا ہے کہ جمہوری اداروںپر اپنے تسلط کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کر رہی ہے ۔ ملک کی اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے مسلسل الزام عائد کیا جاتا ہے کہ جمہوری اداروں کو ایک مخصوص رنگ میںڈھالنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ سب سے پہلے اس ملک میں تعلیم کو متاثر کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا ۔ تعلیمی شعبہ کو زعفرانی رنگ دینے کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں اور یونیورسٹیز اور کالجس میں یہ عمل تیزی سے آگے بڑھایا جا رہا ہے ۔ اسی طرح الیکشن کمیشن اور عدلیہ جیسے اہم ستونوںپر بھی اثر انداز ہونے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ کئی گوشوں کی جانب سے اس جانب حکومت کی توجہ مبذول کروائی گئی ہے لیکن حکومت حقیقت کو تسلیم کرنے تیار نہیں ہے اور نہ ہی حکومت اس جانب کسی طرح کے اقدامات کرنے کیلئے تیار نظر آتی ہے ۔ حکومت کی خاموشی ان شبہات کو تقویت دیتی ہے کہ حکومت خود اس طرح کی کوششوں کی بالواسطہ طور پر حوصلہ افزائی کر رہی ہے ۔ اس طرح کی کوششیں ملک کے سکیولر اور جمہوری ڈھانچہ کو نقصان پہونچانے کے مترادف ہیں۔ ان کوششوں پر کئی اہم گوشوں کی جانب سے تشویش کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے ۔
کچھ گوشوں کی جانب سے یہ بھی الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ حکومت عدلیہ پر بھی اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہے اور اپنے مطابق فیصلے کروانا چاہتی ہے ۔ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وی گوپال گوڑا نے بھی چند دن قبل ایودھیا مسئلہ میںسنائے گئے فیصلے کا تذکرہ کیا اور کہا کہ اس فیصلے کے بعد شدت پسندوں اور رجعت پسندوں کے حوصلے بلند ہوگئے ہیںاور وہ ہندوستان کی کئی اور مسجد پر دعوے کرنے لگے ہیں۔ جسٹس گوپال گوڑا نے اس تاثر کا بھی اعادہ کیا کہ ملک کے جمہوری اداروںپر فرقہ پرستوں کا تسلط بتدریج بڑھتا جا رہا ہے ۔ جسٹس گوپال گوڑا کا یہ بھی تاثر تھا کہ شدت پسند طاقتیں ملک کو فاشسٹ ہندو ریاست میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں اور مساوات ‘ آزادی اور بھائی چارہ کے بنیادی اصولوں کو تباہ کیا جا رہا ہے ۔ ہندوستان ہمیشہ ہی مساوات اور بھائی چارہ کے اصولوںپر گامزن رہا ہے ۔ کئی مذاہب کے ماننے والوں کے رہنے کے باوجود یہاں سبھی میں یکسانیت پائی جاتی ہے ۔ سبھی مذاہب کا احترام کیا جاتا ہے ۔ ہر مذہب کو یکساں احترام دیا جاتا ہے ۔ تاہم حالیہ عرصہ میں دیکھا گیا ہے کہ محض ایک مذہب کو اور اس کے اصولوںکو سب پر مسلط کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ یہ کوششیں ملک کے سکیولر تانے بانے کو متاثر کرنے کی کوشش ہے ۔ کچھ گوشوں کی جانب سے دھڑلے سے ایسی کوششیں کرنے کا دعوی بھی کیا جا رہا ہے اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوںکو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ یہ سارا کچھ حکومت کی ناک کے نیچے ہو رہا ہے ۔
مرکزی حکومت ہو یا مختلف ریاستوں میں بی جے پی کی حکومتیں ہوں ایسا لگتا ہے کہ وہ اقتدار کے زعم میں مبتلا ہیں۔ عوامی رائے سے حکومت حاصل کرتے ہوئے آمریت اختیار کی جا رہی ہے ۔ ملک کی روایات اور اصولوںکی دھجیاںاڑائی جا رہی ہیں۔ سماج میںنفرت کو عام کیا جا رہا ہے ۔ سماج کے اہم طبقات کے مابین منافرت کو ہوا دی جا رہی ہے ۔ ایسا سب ہونے کے باوجود حکومتوں کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی ہے ۔ حکومتوں کی خاموشی ان عناصر کی حوصلہ افزائی کا سبب بن رہی ہے ۔ حکومت کو فوری حرکت میںآتے ہوئے ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کو یقینی بنانا ہوگا ۔ ملک کے سکیولر اور جمہوری اداروں کے تحفظ کیلئے اقدامات کرنے ہونگے ۔ یہی ملک کے مفاد میں ہوگا ۔