ملی اداروں کی شوریٰ اور انتظامیہ کی بعض دینی، اخلاقی اور قانونی ذمہ داریاں/ بقلم: سید احمد اُنیس ندوی

   

کسی بھی ادارے کی شوریٰ اور انتظامیہ کی یہ دینی / اخلاقی اور قانونی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے ادارے کو ان خطوط پر قائم رکھے جو اُس ادارے کے اصل بانیان نے طے کیے تھے اور جو تحریر کیے جا چکے ہیں۔ اگر وہ ادارے کو بانیان کے منہج سے منحرف دیکھیں تو احتساب میں بالکل دیری نہ کریں اور ادارے کو واپس اسی منہج پر لانے کی پوری کوشش کریں۔ اگر یہ نہ ہو تو پھر شوریٰ عملی طور پر ناکام کہلاتی ہے۔

کسی بھی ادارے کی شوریٰ اور انتظامیہ کی یہ دینی / اخلاقی اور قانونی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے ادارے کے قدیم اور تجربہ کار (Seniors) خدمت گزاروں کو ان کی خدمات کا پورا صلہ دے, ان کی خدمات کا عملی طور پر اعتراف کرے۔ ادارے کے لیے پیش کی گئیں ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرے۔ ان کو نظرانداز کرنا یا اہم ذمہ داریوں سے ان کو دور رکھنا سراسر نا انصافی ہے۔ اگر کوئی ادارہ نصف صدی سے زائد عرصے سے خدمات انجام دے رہے لوگوں کو نظر انداز کر کے محض چند مہینوں کے عملی تعلق کی بنیاد پر عہدے اور مناصب تقسیم کرے گا تو سوالات کا پیدا ہونا بالکل عقلی اور فطری بات ہے۔

کسی بھی ادارے کی شوریٰ و انتظامیہ کی یہ دینی / اخلاقی اور قانونی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ادارے کے اصل نصب العین اور اُس کی ہمہ جہت ترقی کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں۔ تعلیمی اداروں کا اصل مقصد اعلی تعلیمی معیار ہے۔ بعض اداروں کا اہم ہدف اور ان کے بانیان کا فکر قدیم و جدید کا خوبصورت سنگم تھا۔ یہی سب سے زیادہ مقدم ہونا چاہیے۔
اسی طرح ذمہ داریاں تفویض کرتے ہوئے صرف اور صرف نجابت, شرافت اور خاندانی پس منظر کو مقدم رکھنے کے بجائے لیاقت و صلاحیت نیز ادارے سے عملی و انتظامی وابستگی کو بھی بنیاد بنائیں۔ اگر کسی میں حسن اتفاق سے یہ تینوں پہلو جمع ہو جائیں تو کیا ہی کہنے ! لیکن صرف ایک یا دو بنیادوں پر کسی کو بڑی ذمہ داری سونپ دینا باعث فکر و تشویش ہے۔ اور اس سے ادارے کے مخلصین میں تنفر پیدا ہوتا ہے۔

کسی بھی ادارے کی شوریٰ کی یہ دینی / اخلاقی اور قانونی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اداروں سے متعلق فیصلے اس قدر دیانت کے ساتھ لیے جائیں اور ان کے فیصلوں کے پیچھے ایسی مضبوط بات علمی و فکری آرا ہوں جن سے ادارے کے منتسبین, وہاں کے فارغ التحصیل علما و طلبہ بالخصوص اور عامۃ المسلمین بالعموم مطمئن ہو جائیں۔ محض موہوم اندیشوں کی بنیاد پر کسی کی اہلیت ثابت کرنا خود ایک عجیب سی بات ہے۔

حضرت یوسف علیہ السلام نے ملک کے خزانوں کی ذمہ داریاں لینے کی جب بات کہی تھی تو فرمایا تھا “انی حفیظ علیم” ۔۔ یعنی میں اس عہدے کے لیے ہر اعتبار سے امانت دار بھی ہوں اور علمی و عملی اعتبار سے اس عہدے کی پوری واقفیت اور اس کی پوری لیاقت و صلاحیت اور ایک طویل تجربہ مجھے حاصل ہے۔
ویسے تو یہ یوسفی اسوہ اپنے ذاتی اداروں میں بھی پیش نظر رکھنا چاہیے, لیکن خاص طور سے وہ ادارے جو ملی ہیں, اور جن اداروں کا اصل تعارف کسی خاندان یا فرد سے نہ ہو کر پوری ملت اسلامیہ سے ہو وہاں اس پہلو کو ملحوظ رکھنا سب سے زیادہ ضروری ہے۔

ذاتی زندگی میں اوصاف و کمالات, تقویٰ و تدین کا ہونا ایک بالکل بات ہے, لیکن کسی بڑی ذمہ داری کو اٹھانے کے لیے اس تدین کے علاوہ اس عہدے اور منصب کے لیے لیاقت و صلاحیت نیز طویل عملی تجربات بھی بہت ضروری ہوتے ہیں۔ دور نبوت کے بعد حضرات خلفائے راشدین کا انتخاب اس کی سب سے بہترین مثال ہے۔

ہمارا بین الاقوامی سطح کا کوئی بھی ملی ادارہ ایسا بانجھ نہیں ہے کہ اس کے پاس صلاحیت مند افراد نہیں ہیں, اگر شروع سے ہی ان کو سامنے لانے کی کوششیں ہوتی ہیں تو لوگ سامنے آتے ہیں۔ جس طرح ہمارے ملک کی ایک بڑی اکثریت کو موہوم اندیشوں کی بنیاد پر یہ سمجھا دیا گیا کہ اگر فلاں اور فلاں نہیں ہوں گے تو آپ کا دھرم خطرے میں آ جائے گا۔ ایسے ہی عالمی شناخت رکھنے والے ملی اداروں میں اگر یہ فکر عام کر دی گئ کہ ادارے کا پورا وجود فلاں شخصیات پر ہی منحصر ہے تو غیر شعوری طور پر یہ خود ادارے کی تنقیص و توہین ہے۔ کیا ایسے ادارے جہاں سے ہر سال ہزاروں لوگ تعلیم و تربیت کے مرحلے سے گزر کر نکلتے ہیں وہ اپنی تعلیم و تربیت میں اس قدر ناقص ہو چکے ہیں ؟ ایسی باتیں کہنے والے ادارے کے پورے نظام پر سوالیہ نشان لگا دیتے ہیں۔

جن اداروں کی بنیاد میں ہی امت کی اجتماعیت اور اختلاف کو سلیقے سے برتنے کا سبق موجود ہو, وہاں محض کسی رائے کے سنجیدہ اظہار پر بھی قدغن لگا دیا جائے یا رائے ظاہر کرنے والے کو باغی سمجھا جائے یہ بہت ہی افسوسناک رویہ ہے۔

عام طور سے ایسے مسائل کا شعور بہت سے لوگوں میں ہوتا ہے, لیکن بعض اندیشے / مجبوریاں یا مصلحتیں ان کو ایسے فیصلے نظر انداز کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ اسی طرح ایک مسئلہ اور ہے۔ ہمارے ایک بہت ہی پیارے مرحوم استاذ کے بارے میں جب ہم کو معلوم ہوا کہ ان کا بیعت و استرشاد کا تعلق حضرت شیخ مولانا محمد یونس جونپوری رحمۃ اللہ علیہ سے ہے, تو ہم نے اس کی وجہ پوچھی۔ تو مولانا مرحوم نے بڑی پتے کی بات کہی ۔ کہنے لگے مولوی صاحب میں سب کا بہت قدردان ہوں, لیکن میرا ماننا یہ ہے کہ “انتظام” اور “استرشاد” کا تعلق ایک ہی جگہ سے نہیں ہونا چاہیے, ورنہ استفادہ نہیں ہو پاتا۔
متعدد ملی اداروں کے بدلتے ہوئے رخ پر خود اداروں سے متعلق بہت سے حضرات کے مکمل سکوت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔

محض قانونی مضبوطی اور کاغذی خانہ پری مسائل کا حل نہیں ہے۔ ایسے میں بس اپنے فیصلے تھوپے تو جا سکتے ہیں لیکن فیصلوں کو دل تک اتارا نہیں جا سکتا۔ اداروں کے منستبین اور فارغین کو مضبوط دلائل سے مطمئن کرنا بھی اداروں کی ہی ذمہ داری ہے۔

یاد رکھیے ! یہ فضلا و فارغین کسی بھی ادارے کا اصل تعارف ہوتے ہیں۔ ان کو اپنے اداروں سے محبت ہوتی ہے۔ ان کی باتوں کو محض اس لیے نظر انداز کرنا کہ وہ ہمارے مزاج کے خلاف ہے یہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے جس کا نقصان ہو کر رہتا ہے۔

آخر میں پھر یہ عرض کروں گا کہ اتفاق اور اختلاف کو سنجیدگی سے برتنا سیکھیے۔ تنگ نظری , طعن و تشنیع اور بد زبانی یہ سب اہل علم کو زیب نہیں دیتا۔ متانت اور دیانت کے ساتھ مسائل کا تجزیہ کیجیے پھر بالکل غیر جانب دار ہو کر کوئی رائے قائم کیجیے۔